Monday, August 21, 2017



 پانچ بہنوں کے اکلوتے18 سالہ بھائی

 چوہدری علی ابرار

کو اوپر بھجنے والے 5 دوستوں کا 14 روزہ جوڈیشیل 
ریمانڈ
---------------------------
48 گھنے  بعد بھی  دریائے جہلم کا چوہدری علی ابرار کے والدین اور بکوٹ پولیس کو اس کی لاش دینے سے انکار
----------------------------
یہ نیلم پوائنٹ ہر سال
 مقامی و غیر مقامی درجنوں خواتین اور بچوں کا خون پینے کا عادی ہو گیا ہے ۔
---------------------------
 کنیر اور دریا کی اس خونی عادت کو ختم کرنے کیلئے دکانداروں کے تعاون سے خار دار تار کی جلد ہی باڑ بھی لگائی جا رہی ہے
 مجتبیٰ عباسی ایڈووکیٹ
 
******************************
تحقیق و تحریر
محمد عبیداللہ علوی
صحافی، انتھراپالوجسٹ، مورخ اور بلاگر
******************************
کنیر پل، نیلم پوائنٹ پر دل پشوری کرنے کیلئے گوجرانوالہ سے والدین کی اجازت کے بغیر آنے والے اور پانچ بہنوں کے اکلوتے18 سالہ بھائی ۔۔۔۔  چوہدری علی ابرار ۔۔۔۔ کو 1500 روپے اور ایک اینڈرائیڈ موبائیل دکھا کر اسے ہزاروں سال سے بہنے والے دریائے جہلم کی بے رحم موجوں کے حوالے کرنے والے ۔۔۔۔ دو سگے بھائیوں اسامہ اور طلحہ ولد عبدالغفار، ذیشان ولد نصراللہ،شعیب ولد افضل، فضاحت ولد عباس کو بکوٹ پولیس نے عدالت میں پیش کر کے ۔۔۔۔۔ ان کا نصف ماہ کا عدالتی ریمانڈ حاصل کر لیا ہے ۔۔۔۔ دوسری طرف بکوٹ پولیس نے اپنی ایف آئی آر نمبر 146 میں قتل بالسبب کے تحت دفعہ 322 لگائی ہے ۔۔۔۔ گزشتہ 48 گھنے سے تلاش کے باوجود ابھی تک دریائے جہلم نے نوجوان چوہدری علی ابرار کے والدین اور بکوٹ پولیس کو اس کی لاش بھی دینے سے انکار کر دیا ہے ۔۔۔۔۔؟
کنیر پل کا یہ نیلم پوائنٹ زمانہ قبل از تاریخ سے انسانوں کو نگلنے میں دنیا بھر میں مشہور ہے ۔۔۔۔۔ یہ زمین یو سی بیروٹ کے ڈھونڈ عباسی قبیلہ کے ذیلی قبیلہ ۔۔۔۔۔ ساہلمال اور اس کی باسیاں میں آباد ۔۔۔۔ بخشیال خاندان ۔۔۔۔۔ کی 84 کنال ملکیتی شاملاتی اراضی ہے، یہاں پر جب 1992 میں نیو کوہالہ پل تعمیر ہو رہا تھا تو گیمن کمپنی نے مالکان اراضی کو اس ساری زمین کی قیمت 15 ہزار روپے آفر کی مگر انہوں نے لینے سے انکار کر دیا تھا ۔۔۔۔ کنیر پل پر دنیا کا سب سے غیر معیاری اور مہنگا ترین بازار 2006 میں قائم ہوا جہاں کے اس تفریحی اور بہتے کنیر کے پانی میں سال 2017  کے 8 ماہ میں 18 افراد کو دریائے جہلم نگل چکا ہے جن میں دس اندرون و بیرون علاقہ سے تعلق رکھنے والی 5 سیاح بچیوں سمیت 8 خواتین بھی شامل ہیں ۔۔۔۔ اسی کنیر پل پر پاک فوج کے حاضر سروس افیسر سے بھی بد سلوکی کی گئی جس کی وجہ سے یہ بازار تین روز تک بند رہا، اس سے پہلے باسیاں اور منہاسہ کے ڈرائیوروں کے درمیان روٹ کے معاملہ پر جھڑپ ہوئی جس کی وجہ سے دو روز نیو کوہالہ پل بند رہنے سے آزاد کشمیر کا پاکستان سے رابطہ بھی منقطع رہا ۔
کنیر پل سے گزرنے والی کنیر اور دریائے جہلم عہد عتیق سے ہی اہم گزرگاہ رہی ہے، کنیر اور دریا 5 ہزار قبل مسیح میں اوپر دومیل سے گزرتے تھے اور یہاں پر دریا کا پاٹ اتنا وسیع تھا کہ اس کے آثار آج بھی کنیر پل کے اوپر دو میل، ڈاک بنگلہ اور سامنے بشیر خان کے پٹرول پمپ کے ساتھ گول گول پتھروں کی صورت میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔۔۔۔ ہندو ناتھ اور یاتری موشپوری پر شیو مندر یا دیول جانے کیلئے اسی پاٹ کو کراس کر کے آگے بڑھتے تھے ۔۔۔۔ اس علاقے میں ہر 5 سو سال بعد آنے والے زلزلے میں اس علاقے کا نقشہ بدل جاتا ہے، ایسے ہی ایک سے زائد زلزلوں کے نتیجے میں کنیر اور دریائے جہلم نیچے اترتے گئے، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ماہرین ارضیات کی تازہ رپورٹ کے مطابق دریائے جہلم 2005 کے زلزلہ کے نتیجے مزید پانچ فٹ نیچے چلا گیا ہے ۔ دریائے جہلم کا قدیم ویدک نام کشن گنگا ہے ۔۔۔۔  اڑھائی ہزار سال قبل سکندر اعظم کے جہلم نامی گھوڑے کی ہلاکت کے بعد اس کا نام جہلم ندی پڑا، کنیر پل کا پرانا نام دومیل ہے، جب دومیل کے ایک سردار اور فیوڈل لارڈ ۔۔۔۔ باس خان یا عباس خان ۔۔۔۔ کا سولہویں صدی میں دور آیا تو ۔۔۔۔ دومیل کا نام ۔۔۔۔ باسیاں ۔۔۔۔ رکھ دیا گیا مگر یہ جگہ دو میل ہی رہی، انگریزوں نے جب کشمیر کے مہاراجہ گلاب سنگھ کی دعوت پر شاہراہ کشمیر تعمیر کی تو انہوں نے دومیل کے مقام پر بیل گاڑیوں کے لئے 1865 میں رومن طرز تعمیر کا شاہکار یہ سنگی پل بنایا تو اس کا نام دومیل سے بدل کر کنیر پل پڑ گیا۔ بقول نور الٰہی عباسی مرحوم اس پل کی تعمیر میں پیر صاحب موہڑہ شریف حضرت پیر نظیر احمد موہڑویؒ اور بیروٹ کے مستری فضل الٰہی کی کاوشیں قبل رشک ہیں ۔۔۔۔ اس پل نے دریائے جہلم کی طغیانیوں کا کئی بار مقابلہ کیا ہے ۔۔۔۔ پتھر کی ڈاٹس اور سرخ چونے کے ملاپ سے تعمیر ہونے والا یہ پل 1991 کے سیلاب میں اوپر سے مکمل ننگا ہو گیا تھا مگر اس میں آج تک کوئی شگاف بھی نہیں پڑ سکا۔

ڈوبنے والا نوجوان چوہدری علی ابرار
کنیر پل کے اس مقام کو وارداتیہ مسکن بھی کہہ سکتے ہیں ۔۔۔۔ اس مقام نے اہلیان بیروٹ اور بکوٹ کے درمیان ریت نکالنے کے معاملے پر بھی کئی جھڑپیں بطھی ہیو چکی ہیں، ان واقعات سے نجات کیلئے 1872 کے پہلے بندوبست میں انگریز افیسر ایبٹسن نے کنیر سمیت بکوٹ والی سائیڈ پر 300 سو فٹ اوپر تک جگہ یو سی بیروٹ میں شامل کی ۔۔۔۔۔ کنیر پل کا موجودہ بازار اس وقت یو سی بیروٹ، وی سی باسیاں کی حدود میں ہے ۔۔۔۔ اب اس بازار میں مبینہ طور پر بکوٹ پولیس کے تعاون سے دل پشوری کرنے کا سارا سامان فرمائش پر وافر مقدار میں فراہم کیا جا سکتا  ہے جس میں ام الخبائث دختر انگور بھی شامل ہے ۔۔۔۔ بتایا جاتا ہے کہ یہاں کے ہوٹل مالکان کی روز کی دیہاڑی 10 سے 20 ہزار روپے تک ہوتی ہے ۔۔۔۔ ویٹر یہاں پر ٹپ کی مد میں 5 ہزار روپے آسانی سے کما لیتے ہیں ۔۔۔۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس جگہ پر واٹر سپورٹس کو انجوائے کرنے کیلئے ۔۔۔۔۔ کاچھے یا نکر کا آدھے گھنٹے کا کرایہ ۔۔۔۔۔ ایک سو روپے ہے ۔۔۔۔ اس مقام پر فرائی مچھلی کی ایک پلیٹ ساڑھے نو سو روپےچائے کا ایک کپ 70 روپے بغیر ٹیکس، ایک چپاتی 25روپے میں سرو کی جاتی ہے ۔۔۔۔ کوئی مائی کا لال اعتراض کر بیٹھے تو اس کی دھنائی کا سامان بھی تمام دکانداروں کے پاس ڈے نائٹ موجود ہوتا ہے ۔۔۔۔۔
کوٹلی ستیاں
سب سے اوپر دریائے جہلم میں تیرتی ہوئی نوجوان کی نعش
دوسری تصویر میں اسے کفن پہنایا گیا ہے
تیسری تصویر میں اس کی نعش بکوٹ تھانہ لائی جا رہی ہے
******************
 اب اس نوجوان چوہدری علی ابرار کی دریائے جہلم میں مرگ آور ڈبکی سے اس نیلم پوائنٹ کی خون مانگنے والی عادت نے وفاقی حکومت کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے اور خوش قسمتی سے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی اسی کنیر پل سے 5 میٹر اوپر دیول کے رہنے والے ہیں اور ایکشن کی بھی تیاری ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔ اسی خونی کنیر پل کے ایک سٹیک ہولڈر اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک فاضل قانون دان مجتبیٰ عباسی آف باسیاں کا کہنا ہے کہ ۔۔۔۔۔ کنیر اور دریا کی اس خونی عادت کو ختم کرنے کیلئے وہاں کے دکانداروں کے تعاون سے خار دار تار کی جلد ہی ایک باڑ بھی لگائی جا رہی ہے  جس پر 45 ہزار روپے کے اخراجات کا تخمینہ ہے جبکہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ۔۔۔۔ بازار تو کھلا رہے مگر کنیر اور دریا کی واٹر سپورٹس پر پابندی لگائی جائے یا اسے مکمل طور پر بند کر دیا جاوے ۔۔۔۔ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسوری ۔
نوجوان کے دوست، جنہوں نے شرط لگا کر اسے دریا میں کودنے پر مجبور کیا
بکوٹ پولیس کے مطابق ۔۔۔۔ چوہدری علی ابرار نہروں کا تیراک تھا، اس نے جب دریا میں چھلانگ لگائی تو آدھے دریا تک تیرتے ہوئے گیا مگر دریا کی ٹھنڈک سے اس کا جسم سن ہو گیا اور وہ خود پر قابو نہ رکھ سکا جس کی وجہ سے وہ بے بس ہو کر دریا کی تیز بہتی لہروں کی نذر ہو گیا ۔۔۔۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ اس کی نعش اب منگلا سے ہی برآمد ہو سکتی ہے یا اس کی ڈیڈ باڈی گہرے دریا میں کسی چٹان میں پھنس جانے سے ابھی تک اوپر نہیں آ سکی ہے ۔۔۔۔۔ اس واقعہ کی دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں کوریج جاری ہے تاہم لمحہ موجود میں سب سے زیادہ کوریج ۔۔۔۔یو سی بیروٹ سے تعلق رکھنے واالے سجاد عباسی کی زیر ادارت شائع ہونے والا ۔۔۔۔ روزنامہ امت راولپنڈی ۔۔۔۔ دے رہا ہے ۔
دریائے جہلم میں دوستوں کی جانب سے شرط لگانے پر دریا عبورکرنے کی کوشش میں ڈوبنے والے نوجوان کی لاش پانچ روز بعد 23 اگست کودریا سےنکال لی گئی ہے۔ ریسکیو 1122کے کوٹلی ستیاں سیکشن نے نوجوان کی نعش 5دن بعد دریا سے نکال کر بکوٹ پولیس کے حوالے کیا۔ جسے پولیس نے قانونی تقاضے پورے کرنے بعد غمگین اہل خانہ کے حوالے کردی ہے۔18اگست کو 5نوجوان دریائے جہلم پکنک منانے آئے تھے جہاں دوستوں نے علی ابرار سے دریا عبور کرنے کے شرط پر 15ہزار نقد اور ایک قیمتی موبائل فون دینے کا کہاتھا۔بدنصیب نوجوان شرط پر دریا میں کود گیا اور دریا کی بے رحم موجوں کی نظر ہوگیا۔
واقعہ کی اخبارات میں رپورٹنگ
روزنامہ خبریں اسلام آباد ۔۔۔۔۔۔ 20 اگست، 2017
 

روزنامہ ایکسپریس اسلام آباد ۔۔۔۔۔۔ 20 اگست، 2017


 
 
 
 


روزنامہ امت اسلام آباد ۔۔۔۔۔۔ 21 اگست، 2017