Monday, August 21, 2017



 پانچ بہنوں کے اکلوتے18 سالہ بھائی

 چوہدری علی ابرار

کو اوپر بھجنے والے 5 دوستوں کا 14 روزہ جوڈیشیل 
ریمانڈ
---------------------------
48 گھنے  بعد بھی  دریائے جہلم کا چوہدری علی ابرار کے والدین اور بکوٹ پولیس کو اس کی لاش دینے سے انکار
----------------------------
یہ نیلم پوائنٹ ہر سال
 مقامی و غیر مقامی درجنوں خواتین اور بچوں کا خون پینے کا عادی ہو گیا ہے ۔
---------------------------
 کنیر اور دریا کی اس خونی عادت کو ختم کرنے کیلئے دکانداروں کے تعاون سے خار دار تار کی جلد ہی باڑ بھی لگائی جا رہی ہے
 مجتبیٰ عباسی ایڈووکیٹ
 
******************************
تحقیق و تحریر
محمد عبیداللہ علوی
صحافی، انتھراپالوجسٹ، مورخ اور بلاگر
******************************
کنیر پل، نیلم پوائنٹ پر دل پشوری کرنے کیلئے گوجرانوالہ سے والدین کی اجازت کے بغیر آنے والے اور پانچ بہنوں کے اکلوتے18 سالہ بھائی ۔۔۔۔  چوہدری علی ابرار ۔۔۔۔ کو 1500 روپے اور ایک اینڈرائیڈ موبائیل دکھا کر اسے ہزاروں سال سے بہنے والے دریائے جہلم کی بے رحم موجوں کے حوالے کرنے والے ۔۔۔۔ دو سگے بھائیوں اسامہ اور طلحہ ولد عبدالغفار، ذیشان ولد نصراللہ،شعیب ولد افضل، فضاحت ولد عباس کو بکوٹ پولیس نے عدالت میں پیش کر کے ۔۔۔۔۔ ان کا نصف ماہ کا عدالتی ریمانڈ حاصل کر لیا ہے ۔۔۔۔ دوسری طرف بکوٹ پولیس نے اپنی ایف آئی آر نمبر 146 میں قتل بالسبب کے تحت دفعہ 322 لگائی ہے ۔۔۔۔ گزشتہ 48 گھنے سے تلاش کے باوجود ابھی تک دریائے جہلم نے نوجوان چوہدری علی ابرار کے والدین اور بکوٹ پولیس کو اس کی لاش بھی دینے سے انکار کر دیا ہے ۔۔۔۔۔؟
کنیر پل کا یہ نیلم پوائنٹ زمانہ قبل از تاریخ سے انسانوں کو نگلنے میں دنیا بھر میں مشہور ہے ۔۔۔۔۔ یہ زمین یو سی بیروٹ کے ڈھونڈ عباسی قبیلہ کے ذیلی قبیلہ ۔۔۔۔۔ ساہلمال اور اس کی باسیاں میں آباد ۔۔۔۔ بخشیال خاندان ۔۔۔۔۔ کی 84 کنال ملکیتی شاملاتی اراضی ہے، یہاں پر جب 1992 میں نیو کوہالہ پل تعمیر ہو رہا تھا تو گیمن کمپنی نے مالکان اراضی کو اس ساری زمین کی قیمت 15 ہزار روپے آفر کی مگر انہوں نے لینے سے انکار کر دیا تھا ۔۔۔۔ کنیر پل پر دنیا کا سب سے غیر معیاری اور مہنگا ترین بازار 2006 میں قائم ہوا جہاں کے اس تفریحی اور بہتے کنیر کے پانی میں سال 2017  کے 8 ماہ میں 18 افراد کو دریائے جہلم نگل چکا ہے جن میں دس اندرون و بیرون علاقہ سے تعلق رکھنے والی 5 سیاح بچیوں سمیت 8 خواتین بھی شامل ہیں ۔۔۔۔ اسی کنیر پل پر پاک فوج کے حاضر سروس افیسر سے بھی بد سلوکی کی گئی جس کی وجہ سے یہ بازار تین روز تک بند رہا، اس سے پہلے باسیاں اور منہاسہ کے ڈرائیوروں کے درمیان روٹ کے معاملہ پر جھڑپ ہوئی جس کی وجہ سے دو روز نیو کوہالہ پل بند رہنے سے آزاد کشمیر کا پاکستان سے رابطہ بھی منقطع رہا ۔
کنیر پل سے گزرنے والی کنیر اور دریائے جہلم عہد عتیق سے ہی اہم گزرگاہ رہی ہے، کنیر اور دریا 5 ہزار قبل مسیح میں اوپر دومیل سے گزرتے تھے اور یہاں پر دریا کا پاٹ اتنا وسیع تھا کہ اس کے آثار آج بھی کنیر پل کے اوپر دو میل، ڈاک بنگلہ اور سامنے بشیر خان کے پٹرول پمپ کے ساتھ گول گول پتھروں کی صورت میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔۔۔۔ ہندو ناتھ اور یاتری موشپوری پر شیو مندر یا دیول جانے کیلئے اسی پاٹ کو کراس کر کے آگے بڑھتے تھے ۔۔۔۔ اس علاقے میں ہر 5 سو سال بعد آنے والے زلزلے میں اس علاقے کا نقشہ بدل جاتا ہے، ایسے ہی ایک سے زائد زلزلوں کے نتیجے میں کنیر اور دریائے جہلم نیچے اترتے گئے، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ماہرین ارضیات کی تازہ رپورٹ کے مطابق دریائے جہلم 2005 کے زلزلہ کے نتیجے مزید پانچ فٹ نیچے چلا گیا ہے ۔ دریائے جہلم کا قدیم ویدک نام کشن گنگا ہے ۔۔۔۔  اڑھائی ہزار سال قبل سکندر اعظم کے جہلم نامی گھوڑے کی ہلاکت کے بعد اس کا نام جہلم ندی پڑا، کنیر پل کا پرانا نام دومیل ہے، جب دومیل کے ایک سردار اور فیوڈل لارڈ ۔۔۔۔ باس خان یا عباس خان ۔۔۔۔ کا سولہویں صدی میں دور آیا تو ۔۔۔۔ دومیل کا نام ۔۔۔۔ باسیاں ۔۔۔۔ رکھ دیا گیا مگر یہ جگہ دو میل ہی رہی، انگریزوں نے جب کشمیر کے مہاراجہ گلاب سنگھ کی دعوت پر شاہراہ کشمیر تعمیر کی تو انہوں نے دومیل کے مقام پر بیل گاڑیوں کے لئے 1865 میں رومن طرز تعمیر کا شاہکار یہ سنگی پل بنایا تو اس کا نام دومیل سے بدل کر کنیر پل پڑ گیا۔ بقول نور الٰہی عباسی مرحوم اس پل کی تعمیر میں پیر صاحب موہڑہ شریف حضرت پیر نظیر احمد موہڑویؒ اور بیروٹ کے مستری فضل الٰہی کی کاوشیں قبل رشک ہیں ۔۔۔۔ اس پل نے دریائے جہلم کی طغیانیوں کا کئی بار مقابلہ کیا ہے ۔۔۔۔ پتھر کی ڈاٹس اور سرخ چونے کے ملاپ سے تعمیر ہونے والا یہ پل 1991 کے سیلاب میں اوپر سے مکمل ننگا ہو گیا تھا مگر اس میں آج تک کوئی شگاف بھی نہیں پڑ سکا۔

ڈوبنے والا نوجوان چوہدری علی ابرار
کنیر پل کے اس مقام کو وارداتیہ مسکن بھی کہہ سکتے ہیں ۔۔۔۔ اس مقام نے اہلیان بیروٹ اور بکوٹ کے درمیان ریت نکالنے کے معاملے پر بھی کئی جھڑپیں بطھی ہیو چکی ہیں، ان واقعات سے نجات کیلئے 1872 کے پہلے بندوبست میں انگریز افیسر ایبٹسن نے کنیر سمیت بکوٹ والی سائیڈ پر 300 سو فٹ اوپر تک جگہ یو سی بیروٹ میں شامل کی ۔۔۔۔۔ کنیر پل کا موجودہ بازار اس وقت یو سی بیروٹ، وی سی باسیاں کی حدود میں ہے ۔۔۔۔ اب اس بازار میں مبینہ طور پر بکوٹ پولیس کے تعاون سے دل پشوری کرنے کا سارا سامان فرمائش پر وافر مقدار میں فراہم کیا جا سکتا  ہے جس میں ام الخبائث دختر انگور بھی شامل ہے ۔۔۔۔ بتایا جاتا ہے کہ یہاں کے ہوٹل مالکان کی روز کی دیہاڑی 10 سے 20 ہزار روپے تک ہوتی ہے ۔۔۔۔ ویٹر یہاں پر ٹپ کی مد میں 5 ہزار روپے آسانی سے کما لیتے ہیں ۔۔۔۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس جگہ پر واٹر سپورٹس کو انجوائے کرنے کیلئے ۔۔۔۔۔ کاچھے یا نکر کا آدھے گھنٹے کا کرایہ ۔۔۔۔۔ ایک سو روپے ہے ۔۔۔۔ اس مقام پر فرائی مچھلی کی ایک پلیٹ ساڑھے نو سو روپےچائے کا ایک کپ 70 روپے بغیر ٹیکس، ایک چپاتی 25روپے میں سرو کی جاتی ہے ۔۔۔۔ کوئی مائی کا لال اعتراض کر بیٹھے تو اس کی دھنائی کا سامان بھی تمام دکانداروں کے پاس ڈے نائٹ موجود ہوتا ہے ۔۔۔۔۔
کوٹلی ستیاں
سب سے اوپر دریائے جہلم میں تیرتی ہوئی نوجوان کی نعش
دوسری تصویر میں اسے کفن پہنایا گیا ہے
تیسری تصویر میں اس کی نعش بکوٹ تھانہ لائی جا رہی ہے
******************
 اب اس نوجوان چوہدری علی ابرار کی دریائے جہلم میں مرگ آور ڈبکی سے اس نیلم پوائنٹ کی خون مانگنے والی عادت نے وفاقی حکومت کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے اور خوش قسمتی سے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی اسی کنیر پل سے 5 میٹر اوپر دیول کے رہنے والے ہیں اور ایکشن کی بھی تیاری ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔ اسی خونی کنیر پل کے ایک سٹیک ہولڈر اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک فاضل قانون دان مجتبیٰ عباسی آف باسیاں کا کہنا ہے کہ ۔۔۔۔۔ کنیر اور دریا کی اس خونی عادت کو ختم کرنے کیلئے وہاں کے دکانداروں کے تعاون سے خار دار تار کی جلد ہی ایک باڑ بھی لگائی جا رہی ہے  جس پر 45 ہزار روپے کے اخراجات کا تخمینہ ہے جبکہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ۔۔۔۔ بازار تو کھلا رہے مگر کنیر اور دریا کی واٹر سپورٹس پر پابندی لگائی جائے یا اسے مکمل طور پر بند کر دیا جاوے ۔۔۔۔ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسوری ۔
نوجوان کے دوست، جنہوں نے شرط لگا کر اسے دریا میں کودنے پر مجبور کیا
بکوٹ پولیس کے مطابق ۔۔۔۔ چوہدری علی ابرار نہروں کا تیراک تھا، اس نے جب دریا میں چھلانگ لگائی تو آدھے دریا تک تیرتے ہوئے گیا مگر دریا کی ٹھنڈک سے اس کا جسم سن ہو گیا اور وہ خود پر قابو نہ رکھ سکا جس کی وجہ سے وہ بے بس ہو کر دریا کی تیز بہتی لہروں کی نذر ہو گیا ۔۔۔۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ اس کی نعش اب منگلا سے ہی برآمد ہو سکتی ہے یا اس کی ڈیڈ باڈی گہرے دریا میں کسی چٹان میں پھنس جانے سے ابھی تک اوپر نہیں آ سکی ہے ۔۔۔۔۔ اس واقعہ کی دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں کوریج جاری ہے تاہم لمحہ موجود میں سب سے زیادہ کوریج ۔۔۔۔یو سی بیروٹ سے تعلق رکھنے واالے سجاد عباسی کی زیر ادارت شائع ہونے والا ۔۔۔۔ روزنامہ امت راولپنڈی ۔۔۔۔ دے رہا ہے ۔
دریائے جہلم میں دوستوں کی جانب سے شرط لگانے پر دریا عبورکرنے کی کوشش میں ڈوبنے والے نوجوان کی لاش پانچ روز بعد 23 اگست کودریا سےنکال لی گئی ہے۔ ریسکیو 1122کے کوٹلی ستیاں سیکشن نے نوجوان کی نعش 5دن بعد دریا سے نکال کر بکوٹ پولیس کے حوالے کیا۔ جسے پولیس نے قانونی تقاضے پورے کرنے بعد غمگین اہل خانہ کے حوالے کردی ہے۔18اگست کو 5نوجوان دریائے جہلم پکنک منانے آئے تھے جہاں دوستوں نے علی ابرار سے دریا عبور کرنے کے شرط پر 15ہزار نقد اور ایک قیمتی موبائل فون دینے کا کہاتھا۔بدنصیب نوجوان شرط پر دریا میں کود گیا اور دریا کی بے رحم موجوں کی نظر ہوگیا۔
واقعہ کی اخبارات میں رپورٹنگ
روزنامہ خبریں اسلام آباد ۔۔۔۔۔۔ 20 اگست، 2017
 

روزنامہ ایکسپریس اسلام آباد ۔۔۔۔۔۔ 20 اگست، 2017


 
 
 
 


روزنامہ امت اسلام آباد ۔۔۔۔۔۔ 21 اگست، 2017


Saturday, March 30, 2013

Preface
I am a student of History an Anthropology beside a working journalist in Pakistani Capital. I studied thousand of books and one thing that click me regular since three decades is IMPORTANCE OF KOHALA & TEXILA in ancient ages. Kohala is not only a bazaar of a dozen shops but a dens of civilization from period of Great Mahabharta War. Kohala is a crossing point of Vatesta (Jhelum River) and named goddess, wife of Sheve god in Hinduism. Books as  Vadas, Upnished, Ramaen and Gita are witnessed of Kohala and Mushkpori since five millenniums. I think that Kohala is our heritage and our MNAs and MPAs should safeguard it. Professor Dr. Dani (Died in 20011) of Quaid e Azam University told me in an interview that Texila and Kohala are those places that have international importance with reference of ancient civilization in East.

Searched & written by
MOHAMMED OBAIDULLAH ALVI
(Journalist, Historian & Anthropologist) 
Ph: +92 331 5446020
E Mail: alvibirotvi@gmail.com
In future ......... Islamabad to Muzafferabad (AJK) Road under China Pak Corridor Plan.
Kohala is a town in Pakistan on the River Jhelum, north of Murree, south of Muzaffarabad, and east of Circle Bakote,  Kohala is the site of the well-known Kohala Bridge across the River Jhelum. Kohala is a gateway to the Muzaffarabad and Bagh districts of Azad Kashmir. It lies where the Punjab, Kashmir and Khyber Pakhtunkhwa boundaries meet.
Old Kohala bazar and bridge in land sliding of 20th March, 2016
Theories about Kohala origion

  1. There are two theories regarding the etymology of Kohala. One is that it originates from the name of a Hindu goddess Kohala Dewi (Devi Kohla or the Devi of Kowel) because Kohala was a place where Hindu deities were worshiped on the banks of the Watesta (Jhelum) River before the arrival of Islam. A temple called Dawal was there. 
  2. Another theory is that Kohala is derived from the Dhondi/Kareali language kohal, meaning "cattle room" or house that was partitioned in living room in ancient time or separate or beneath of living house in modern era, or gotrerhi, a place where livestock urinate and sit.
  3. Indian Scholars claim that Maha Bharta chapters 28-32 narrated that Kohala was a folk musicion who introduced DESI RAGS at that time. (Indian Music: History and Structure by Emmie Te Nijenhuis, pp 03) 
  4. Name: Kohala No. of characters: 6 Gender: Boy Girl, You are born in Punarvasu nakshatra having Guru as lord. The symbol of your name is Bow and quiver and protected by Aditi. Rashi of Kohala is Mithun denoted by Twins in Indian zodiac, ruling planet of Kohala is Mercury and tattva is Vayu or Air. Kohala have Cancer zodiac sign in western culture depending on the birth time and location. (Read more)
  5. Word KOHALA is derived from KO and HALA from Sanskrit word kat^ /uiia, and gives the following meanings: " (1) speaking indistinctly ; (2) a sort of nonspiritual liquor; (3) a kind of musical instrument. (Read more)
  6. KOHALA is the name of power and clarity. You are honest and faithful. You will benefit from people of influential nature. You will often witness fresh and new beginnings in life. It is an extremely favorable and fortunate name which will bring you prosperity, happiness and honor. You will achieve success in most plans and venture. It is overall a good name to have. (Read more) 
  7. KOHALA is a Alcoholic holy spirit made from rice............ word KOHALA is as old as 5th century Sanskrit medical treaties. (Read more) 
  8. KOHALA BHUI is a medicinal plant with  with very showy flowers. Has a large tuberous root which is supposed to have medicinal values. (Read more)
  9. Places name with KOHALA are situated at RawalpindiAttock, Hawaii, Nepal, KPK province, Kohala Chapper, Nalka KohalaKotli Kohala, Kohala India, Kohala Amretser, Kohala Himachal Pradesh,Kohala UP

Kohala is a place where caravans from Kashmir stayed after crossing Jhelum River and their horses and donkeys were tied up there in antiquity. 

Two Kohalas
There are two Kohalas in the region; one is on both banks of river Jhelum and a Kohala Bala at Lora, boths are setuated in Abbottabad District.

HISTORY
In ancient times Kohala was a centre of Hindu pilgrimage who worshipped Kohala Dewi. By the middle of 500 BCE Kohala had become a centre of the Buddhist community and a temple was constructed between Kohala and Knair Pull. It was a route of Buddhist monks for travelling from Taxila to Sharda Buddhist university in Sharda, Kashmir.

18th century
Kohala was possessed by the Karlal tribe in the mid eighteenth century and in 1200 when the Dhond Abbasi tribe attacked, they vacated Bakot and Kohala also. From this time Kohala was under the proprietorship of Birote. When the Mojwal family of the Dhond Abbasi tribe migrated to Bakote by force, the Kohala proprietorship transferred to Mojwals of Bakote.

19th century
In the first decade of 1800, Malka Singh, administrator of Rawalpindi captured Kohala by force. In 1814 Malka Singh and the Dogra government of Kashmir under Gulab Singh developed the area as a business centre for Hindu merchants.

British era
In the first decade of 1800, Malka Singh, administrator of Rawalpindi captured Kohala by force. In 1814 Malka Singh and the Dogra government of Kashmir under Gulab Singh developed the area as a business centre for Hindu merchants. British Era In 1863 Sir James Abbott, the first commissioner of Hazara, changed the name of the area from Patan (the old name) to Kohala. The British government transferred the administration of Kohala to Murree on a one hundred year lease in 1873. The Punjab government renewed this lease in 1973 for 20 years and it was reunited with Bakote in 1993.
The first wooden Kohala Bridge in 1880
People crossing River Jhelum on iron ropes
 when the first Kohala Bridge washed away in 1890 flood
Kohala in 1905

 British India built a rest house in the south of Kohala for high officials with seven drying rooms, two kitchens, one reading room, two toilets and horse and dog barns. The Indian olive, banana, apple and silkworm trees were in the guest house's eastern lawn. Guest house staff consisted of 30 people. A telegraph office (later a post office) was established there in 1880. Allama Iqbal (Poet of the East) staying in this rest house in 1930 and wrote his famous poem "Hammala", the 1st poem of his book Bang-e-Dra here. The bazaar of Kohala was most populated until 1947. Hindu merchants from Dewal, Murree, Rawalpindi and Punch controlled trade between Punjab and Kashmir. The first landslide had taken place in 1929 and than 1960 in wich dakbegalow severly dameged.

Kohala Bridge in 1900, old wooden suspension bridge pillars are seen.

The British government transferred the administration of Kohala to Murree on a one hundred year lease in 1873. The Punjab government renewed this lease in 1973 for 20 years and it was reunited with Bakote in 1993.

Second Iron Kohala Bridge in 1904

Allama Iqbal (Poet of the East) staying in this rest house in 1930 and wrote his famous poem "Hammala", the 1st poem of his book Bang-e-Dra here. The bazaar of Kohala was most populated until 1947. Hindu merchants from Dewal, Murree, Rawalpindi and Punch controlled trade between Punjab and Kashmir.


Western Kohala in 1911

After independence

In 1947 during the Partition of India the local people in Kohala started attacks and all Hindu merchants fled to Punjab and Kashmir. India bombarded Kohala twice. Many jihadis came to Kohala and entered Kashmir by crossing over the Kohala Bridge. A girls college was proposed by the Punjab government in 1991, but it was not possible due to lease conditions. A primary school operates in Kohala, with Rawalpindi Education Department funding .

Flood in River Jhelum under old Kohala new wooden and iron bridges

AND NOW
Iron and suspension bridges in old Kohala now
 
Epitaph of new suspension bridge at Kohala

New Kohala Bridge at  Gujar Kohala, district Bagh in AJK (east word) and Domail, UC Birote in district Abbottabad, KPK (west word)
This Bridge has constructed in 1993 by Gamon Construction Co.

 Construction work in progress near Gilani flore Mills at Gujer Kohala
<Read More>


Kohala.... As a place of Public Meeting before 1947
Kohala was a symbol of Independent before 1947 from British Colonialism in west part and from Dogra Raj in East. Some important assurances that reflected this struggle for freedom on both part of Kohala Bridge were narrated by historians.
Kohala rest house ..... Then & now
 
Kohala Dak Bangalow....... All public meetings held hare before & after independence
Now it is a garage....... a swear negligence of Circle Bakote rulers
  • 1932...... Ahrar e Islam, Allama Anaetullah Al Mashraqi Movment announced Cival Disobedience and Jihad against Dogra Regime. Ahrar leader Tajudin Ludheyanwi came in Kohala, organised movement with local Muslim co-operation. Other leaders as Qazi Ahsan Ahmed Shuja Abadi, Molana Mazher Ali Azher, Molana Khuda Bakhsh, Ghazi Mannay Khan and Khawaja Ghulam Mohammed crossed Kohala Bridge and forwarded tward Muzafferabad. Ghazi Mannay Khan martyred in that ambush, Dogra troops cut his nose, ears, throat and other organs and had thrown his dead body on Bridge western end.
  • 1940...... Sardar Abdurab Nishter called a public meetin in Kohala The first MLA (before Independence) of NWFP Legislative Assembly from Circle Bakote and Lora Sardar Khan Bahadar Khan and Choadri Khaliq u Zaman addressed among others Muslim League local leaders. Hazrat Molana Mian Pir Haqiqullah Bakoti and Raja Kala Khan were hosts of this public meeting.
  • 26th July, 1946...... Quaid e Azam cross Kohala Bridge, coming from Kashmir and entered in pre Pakistan terrotory. Sahibzada Hazrat Pir Haqiqullah Bakoti and Khan Abdul Qayoum Khan among  Haji Esab Khan, Khan Abdurahman Khan of Lora and Raja Serwer Khan of Rewat, Murree recieved him. Poet of Kohsar Molana Mian Mohammed Yaqoob Alvi Birotvi recited his tributional poem to great leader Mohammed Ali Jinnah in Kohala. Earlear Quaid e Azam stayed an hour in Bersala dak bungalow and then traveled to north.


جب قائد اعظم نے تاریخی کوہالہ پل عبور کیا؟

(Obaidullah Alv.)
میں جانتا ہوں مری کا پتہ پتہ مسلم لیگی ہے جبکہ ہمیں ہندو کانگریس اور انگریز سامراج کا سامنا ہے،،چکی کے یہ دو پاٹ ہمیں پس دینے پر تلے ہوئے ہیں،آپ دونوں کے درمیان لوہے کے چنے بن جائیے تاکہ پس نہ جائیںِ َ ، قائد اعظم کا مری میں خطاب
******************
راجہ کالا خان نے مری میں نہ صرف قائد اعظم کی میزبانی کی بلکہ انہیں قبائل کوہسار کی طرف سے مسلم لیگ کے فنڈ میں ایک لاکھ روپے کا چیک بھی پیش کیا
******************
  یوں تو کوہسار پر گکھڑوں کے یکطرفہ اقتدار کے خلاف معرکہ آرائی اور رنجیت سنگھ کے دربار لاہور اور پھر جموں کے تہزیب و تمدن کے دشمن گلاب سنگھ کی بدکردار اور لٹیری حکومت کے خاتمہ کے بعد ہند بھر کے مسلمانوں کی طرح اہلیان کوہسار کے ہاتھ کچھ بھی تو نہ آ سکا، پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے نتیجے میں برطانوی استعمار نے جب برصغیر سے اپنا بوریا بستر لپیٹنا شروع کیا تو سوال پیدا ہوا کہ انگریزوں کے اس خلا کو کون پر کریگا، یہاں تو ایک ہزار سال تک مسلمانوں نے حکومت کی تھی، جس کی وجہ سے تمدن خور ہندوستانی تہذیب کو نئی اقدار حکومت و سماج سے آشنا ہوئی اور اس بتکدے میں ہکتا و تنہا رب الارباب کی صدائیں بلند ہوئیں..........یہی وہ دوقومی نظریہ کی اساس تھی جس نے ہندو، ہندی اور ہندوستان کا نعرہ مسترد کرتے ہوئے مسلم، اردو اور پاکستان کا فلک شگاف نعرہ لگا دیا اور قائد اعظم کی سرفروشانہ قیادت میں جنوب مشرقی ایشیا میں اسلام کا قلعہ یعنی پاکستان قائم کر دیا، جہاں آج ہم آزادی کے سانس لے رہے ہیں۔ برصغیر کے پہلے انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی اور کوہسار میں ہندونواز کانگریس سمیت دیگر جماعتوں کے عوامی استرداد کے بعد یہ بات الم نشرخ ہو چکی تھی کہ ہادی دوعالم ﷺ کے پروانے مسلم لیگ، قائد اعظم اور پاکستان کے علاوہ کسی دوسرے آپشن کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں اور گکھڑوں کے آٹھ سو سالہ اقتدار کے خاتمہ، رنجیت سنگھی اور گلاب سنگھی راجواڑوں نے اہلیان کوہسار کی تہذیب و ثقافت کو لوٹنے کیلئے کتھریوں کی ایک بڑی تعداد کو یہاں لا بسایا تھا انہیں بھی معلوم ہو گیا تھا کہ اب یہاں ان کی کو ئی گنجائش نہیں رہی اور اب انہیں اس پاک سرزمین سے انخلا کرنا ہی پڑے گا۔ چنانچہ ایبٹ آباد شہر سے باہر کانگریس اور سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان سمیت دیگر مسلم لیگ مخالف جماعتوں کا کوئی اثرو رسوخ نہ ہونے کے برابر تھا، 23 مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور جو بعد میں قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی کی منظوری کے بعد سرکل بکوٹ کی سیاست میں تبدیلی رونما ہوئی اور سرکل بکوٹ کے کانگریس نواز جاگیردار سردار حسن خان لے بھی چولا بدلا اور مسلم لیگ جوائن کر لی اور اہلیان کوہسار نے انگریزی اقتدار کے آخری 1945ء کے الیکشن میں سرداری کی پگ اسی کے نام کر دی۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔ آزادی کے بعد 1952ء کے پہلے الیکشن میں اسے ہمیشہ کیلئے مسترد کر دیا۔ سردار حسن علی خان کی اسی یونین کونسل بوئی کے رہائشی کشمیری نژاد سید غلام حسین کاظمی نے بر صغیر کی تاریخ صحافت میں پہلی بار1936 میں ایبٹ آباد سے ہفت روزہ پاکستان کے نام سے اخبار نکال کر پاکستان کا پیغام عام مسلمانوں تک پہنچانے کی کوشش کی، چوہدری رحمت علی تو اس وقت تھرد ائر کے سٹوڈنٹ تھے۔ ان کا یہ دعویٰ بلکل درست نہیں کہ وہ لفظ پاکستان کے خالق ہیں بلکہ پاکستان کا نام تو سرکل بکوٹ کے ایک پسماندہ دیہاتی علاقے بوئی کے سید غلام حسین کاظمی کے ذہن کی اختراع ہے، جدید علمی تحقیقات نے بھی اس کی تصدیق کر دی ہے۔(تفصیلات کیلئے دیکھئے Pakistan Chronical از عقیل عباس جعفری بحوالہ روزنامہ جنگ راولپنڈی، 16اگست2012ء) قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی منزل جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں کو چند قدم کے فاصلے پر نظر آنے لگی لیکن ابھی حصول منزل کیلئے کافی جد و جہد کی ضرورت تھی، سحر پیدا کرنے کیلئے ابھی ہزاروں ستاروں اور سیاروں کی قربانی پیش کی جانی تھی۔ شمالی پنجاب میں مسلم لیگ کی مقبولیت اور کانگریس و حکمران یونینسٹ پارٹی کے زوال کے آثار نمایاں تر ہوتے جا رہے تھے، جوہر لال نہرو اس صورتحال سے پریشان تھے۔ اس سلسلے میں وہ کشمیر کے راستے کوہسار آنے کیلئے کوہالہ پل پر پہنچے ، مگر کوہسار کے مسلمانوں نے محارہ کے طور پر نہیں بلکہ عملی طور پر تھپڑ رسید کر کے نہرو کو غربی کوہالہ میں قدم بھی رکھنے نہیں رکھنے دیا اور اسے وہاں سے ہی واپس دہلی جانا پڑا، یہ تھپڑ بھی قیام پاکستان کی نا گزییریت کی ایک اینٹ تھی، قائد اعظم محمد علی جناح نے اس خطہ کے لوگوں اور اپنے جانثاروں سے براہ راست رابطے کیلئے یہاں آنے کا پروگرام بنایا، آپ جولائی 1944ء میں کشمیر کے راستے کوہالہ کے قریب برسالہ کے مقام پر پہمچے، قائد کی جھلک دیکھنے کیلئے غربی کشمیر، سرکل بکوٹ اور مری کے کوہساروں کے چپہ چپہ سے لوگوں کا سمندر امڈ آیا تھا، قائد اعظم کی کار کو کوہسار کے پھولوں سے لاد دیا گیا تھا، قائد نے یہاں چائے نوش جاں کی اور پھر آدھے گھنٹے بعد کوہالہ پل پر پہمچے تو اہلیان کہسار ان کے ہاتھ چومنے کیلئے آگے بڑھنے لگے، کوہالہ کا یہ تاریخی پل پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجھنے لگا، آپ نے ہاتھ ہلا ہلاکر پاکستان کے متوالوں کے سچے اور سُچے جذبات کو سراہا، سرکل بکوٹ کے ہزاروں افراد کا قافلہ ان کے ساتھ دیول تک ساتھ آیا۔نور الٰہی عباسی اپنی کتاب تاریخ مری (نیا ایڈیشن) کے صفحہ نمبر 185پر لکھتے ہیں۔ اس موقع پر لوئر دیول کے بزرگ رہنما امیر احمد خان صفوں کو چیرتے ہوئے آگے نکل کر قائد اعظم کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، انہوں نے بصد خلوص احترام پھولوں کا گلدستہ پیش کرتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا کہ برگ سبز است، تحفہ درویش است، (ایک بزرگ کی طرف سے سبز پتوں کا تحفہ قبول کر لیجئے) یہ کہتے ہوئے بابا امیر خان کی نظریں بابائے قوم کے چہرے پر مرکوز ہو گئیں ۔۔۔۔۔ قائد اعظم نے بابا جی سے پوچھا۔ بابا جی بتائیں میں کون ہوں اور میرا مشن کیا ہے؟
جی آپ مسلمانوں کے عظیم رہنما اور قائد اعظم محمد علی جناح ہیں اور برصغیر کے مسلمانوں کے لئے آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ بابا احمد خان نے بڑی متانت سے جواب دیا۔ قائد اعظم نے مری پہنچ کر جو تقریر کی وہ اگرچہ انگریزی زبان میں تھی اور اس کا مری کے ممتاز مسلم لیگی رہنما خواجہ محمود احمد منٹو ساتھ ساتھ اردو میں ترجمہ بھی کر رہے تھے (یہ تقریر پاکستان نیشنل آرکائیوز اسلام آبادکے ریکارڈ میں موجود نہیں) نور الہی عباسی ہی اس کے راوی ہیں، اپنی کتاب تاریخ مری میں لکھتے ہیں۔
۔۔۔۔ میں جانتا ہوں مری کا پتہ پتہ مسلم لیگی ہے جبکہ ہمیں ہندو کانگریس اور انگریز سامراج کا سامنا ہے،،چکی کے یہ دو پاٹ ہمیں پس دینے پر تلے ہوئے ہیں،آپ دونوں کے درمیان لوہے کے چنے بن جائیے تاکہ پس نہ جائیں۔ (، اس موقع پر راجہ کالا خان نے نہ صرف قائد اعظم کی میزبانی کی بلکہ انہیں قبائل کوہسار کی طرف سے مسلم لیگ کے فنڈ میں ایک لاکھ روپے کا چیک بھی پیش کیا )۔
قائد کا کوہسار سرکل بکوٹ اور مری کا یہ پہلا اور آخری دورہ تھا، آپ کے اس دورے کا اثر یہ ہوا کہ یہاں مقیم کانگریسیوں کے حوصلے پست ہو گئے، علاقے میں ایک نیاجوش و ولولہ دوڑ گیا اور واقعی کوہسار کا پتہ پتہ مسلم لیگی ہو گیا، اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں کی عید آزادی کی صبح نمودار ہو گئی۔۔۔۔لیکن آج 70 سال بعد وہ خواب جسے اقبال اور قائد اعظم نے دیکھا تھا اس کی تعبیر معکوس نے قوم کو مایوسیوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔۔۔۔ کیا خلد بریں میں موجودہ پاکستانی حالات پر قائد اور اقبال کی روح تڑپتی نہ ہو گی؟


تحریک قیام پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر میں
اہلیان کوہسار کا حصہ

****************
ڈاک بنگلہ کوہالہ میں لیگی قائدین کے اہم اجلاس میں مسلم لیگ سرکل بکوٹ کا قیام عمل میں لایا گیا
*****************
 پہلے صدر حضرت پیر عتیق اللہ بکوٹی منتخب ہوئے،اجلاس کی میزبانی باسیاں کے حاجی عبدالکریم خان نے کی
---------------
باسیاں کے سردار یعقوب خان نے ایک ڈوگرہ لیفٹیننٹ کرنل کو اغوا کر کےاسے کوہالہ پل سے نیچے الٹا لٹکا کر
 مطالبہ کیا کہ پل نہ کھولا گیا تو اسے گولی مار دی جائیگی
******************
یوں تو قائد اعظم کے 1944 کے دورہ سرکل بکوٹ و مری کے بعد ہی حالات یکسر تبدیل ہو گئے تھے مگراسی کے فالو اپ میں اپنے دورہ شمالی پاکستان کے سلسلے میں آل انڈیا کانگریس کے صدر جواہر لال نہرو نے شیخ عبداللہ کی ہمراہی میں کوہالہ پل عبور کرنے کی کوشش کی اور یو سی بکوٹ کے کوہالہ میں ایک حلوائی نامی دکاندار نے ملنے کے بہانے جواہر لال نہروں کو کوہالہ پل کے وسط میں اس سے بغلگیر کر کے اسے ایک ایسا تھپڑ رسید کیا تھا کہ اس کے گال ہی نہیں بلکہ کوہسار سرکل بکوٹ اور مری سمیت گلیات میں صٓدیوں سے مقامی لوگوں کی آبائی زمینوں پر قابض ہندو کھتریوں کے مستقبل پر بھی سرخ نشان لگ گیا تھا ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ چشم فلک نے دیکھا کہ پنجاب کے پی کے سرحد پر 1820 میں تعمیر ہونے والے قلعہ کی بنیادوں میں پیر عبدالمجید علوی المعروف پیر صاحب دیول شریف کے دادا محمد ہاشم علوی اور ان کے ساتھ بر سر پیکار مجاہدین کو زندہ درگور کرنے والے ہندو کھتریوں کی اولادوں میں سے ہائر سیکنڈری سکول اوسیاہ کا ایک ٹیچر بھگت سنگھ دیول سے دریائے جہلم کی طرف بھاگا جا رہا تھا اور اوسیاہ کے اس کے جہادی شاگرد اس کی جان مار کر ثواب حاصل کرنے کیلئے اس کے پیچھے آڑے بنے ٹاپ رہے تھے، بھگت سنگھ نے دریائے جہلم کی خوفناک بپھری موجوں میں چھلانگ لگا دی اور وہ اپنی برادری کے دیول کے سب سے بڑے تاجر ہوشناک سنگھ کے پاس پہنچ گیا جسے مسلمانان دیول نے کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے ہندوستان کے بجائے اوپر پہنچا دیا تھا۔ (یہ واقعہ اوسیاہ ہائر سیکنڈری سکول کے ایک ٹیچر نے راقم الحروف کو بتایا تھا)
اہلیان کوہسار کی تحریک قیام پاکستان میں اپنی بے لوث خدمات کا ذکر جہاد کشمیر کے بغیر نا مکمل ہے اور اس کو سمجھنے کیلئے 1946 کے حالات کو سمجھنا بہت ضروری ہے، اسی سال ہندوستان بھر میں الیکشن ہوئے، پنجاب قانون ساز اسمبلی میں مری کا حلقہ نمر تین تھا، مری میں مسلم لیگ کے زیر اہتمام اور سردار نور خان اور سردار کالا خان کی میزبانی میں تین روزہ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں سردار عبدالرب نشتر اور پیر صاحب مانکی شریف سمیت اہم رہنماہوں نے شرکت کی، اسی دوران پیر صاحب بکوٹ شریف حضرت پیر حقیق اللہ بکوٹی نے مسلم لیگ کے حق میں فتویٰ صادر کر دیا اور اسے انتخابات میں کامیاب کرنے کی اپیل کی (بحوالہ تاریخ ہزارہ از شیر بہادر خان پنی)، مری کے حلقہ نمبر تین کے انتخابات میں مسلم لیگ کے امیدوار راجہ کالا خان نے 10 ہزار 3سو 80ووٹ لیکر اپنے مد مقابل راجہ فتح خان کو2 ہزار 8ووٹ سے شکست دی اور کامیابی کے نوٹیفکیشن کے بعد جلوس کے ساتھ پوٹھہ شریف میں حضرت پیر ملک سراج خان کے مزار پر شکرانے کے نوافل ادا کئے اور دعا کی۔ (بحوالہ تاریخ مری از نور الٰہی عباسی) اس الیکشن میں سرحد کی قانون ساز اسمبلی 38 حلقوں میں تقسیم تھی، موجودہ تحصیل ایبٹ آباد (سرکل بکوٹ، سرکل لورہ اور گلیات) کے حلقہ کا نمبر آخری یعنی 38 تھا، سرکل بکوٹ میں نواب آف بوئی سردار حسن علی خان کانگریس کی طرف سے جبکہ سرکل لورہ میں نگری ٹوٹیال کے راجہ سردار خان مسلم لیگ کے امیدوار تھے، ان الیکشنز میں مسلم لیگ کے 9 میں سے 8 امیدوار کامیاب ہوئے، مسلم لیگی کامیاب امیدواروں میں لورہ کے راجہ سردار خان، ریحانہ ہری پور سے سردار خان بہادر خان، محمد عباس خان، خان علی گوہر خان، خان، محمد فرید خان، ایبٹ آباد سے خان بہادر جلال الدین (جلال بابا) شامل تھے۔ ہری پور کے خان بہادر خان حلقہ 38 نے 6ہزار 9 سو80 ووٹ لیکر خاکسار تحریک کے اپنے مد مقابل امیدوار محمد عظیم خان کو ہرا دیا ۔ (بحوالہ تاریخ تناول از فدا حسین)
مارچ 1946 میں کشمیریوں پر ڈوگرا فوج نے عرصہ حیات تنگ کر دیا، اس کے نتیجے میں وہ تحریک آزادی اٹھی کہ ظالم گلاب سنگھ کے پوتے اور نام نہاد مہاراجہ ہری سنگھ کو رات کی تاریکی میں نئی دہلی فرار ہونا پڑا، اسی ماہ کوہالہ، کھودر اور آزاد پتن میں ڈوگروں نے فوجی چوکیاں قائم کیں جہاں ڈوگرہ فوجی ان پلوں پر آنے والے کشمیریوں کا سامان لوٹ لیتے تھے، مئی میں مظفر آباد اور باغ کے اضلاع میں ڈوگروں نے مقامی لوگوں کی فصلیں تباہ کر کے گھروں کو نذر آتش کر دیا، اسی دوران دونوں اضلاع میں تلاشی کے دوران مسلمانوں سے اسلحہ چھین کر ان کو نہتا کر دیا گیا، ستمبر تا نومبرچکوٹھی سے آگے ڈوگروں نے راولپنڈی سری نگر روڈ بند کر دی، اس روٹ پر چلنے والے موجودہ پاکستان کے ٹرانسپورٹروں سمیت بیروٹ کے راجہ نذر خان (جلیال)،سید غلام نبی شاہ، سید محمود شاہ اورٹھیکیدار محمد امین خان (بیروٹ) کی مشترکہ سرینگر روڈ ٹرانسپورٹ کمپنی کی آٹھ بسوں کو ضبط کر لیا گیا، تین بسیں جو راولپنڈی میں تھیں اس کمپنی کے پاس بچ رہیں اور یہ انیس سو اسی تک راولپنڈی مظفرآباد روٹ پر چلتی رہیں، اسی دوران مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان نے مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے ڈوگرہ حکومت کیخلاف سول نافرمانی کا اعلان کر دیا، شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے کشمیر چھوڑ دو کی کال دے دی اور قافلوں کی صورت میں کشمیری سرکل بکوٹ اور مری آنے لگے، کوہسار کے لوگوں نے کشمیریوں کے ساتھ مواخات نبویﷺ کو زندہ کر دیا جو آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ (بحوالہ تاریخ بونچھ از سید محمود آزاد)
 جون 1946 سے قافلے آ رہے تھے اور اہلیان کوہسار ان مظلوم کشمیریوں کی راہ میں آنکھیں بچھائے انہیں اپنا گھر بار، مال مویشی اور رہنے کے دیگر وسائل پیش کر رہے تھے کہ ڈوگروں نے کوہالہ پل بند کر دیا، ادھر مناسہ تک اور دوسری طرف چھتر تک کشمیری پل کھلنے کا انتظار کر رہے تھے، اس پر مستضاد یہ کہ ڈوگروں نے ان محصور قافلوں پر تشدد شروع کر دیا جس کی وجہ سے خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں لوگ زخمی ہو گئے اس پر کوہسار بھر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی، نومبر میں باسیاں کے مجاہد سردار یعقوب خان نے مہاراجہ ہری سنگھ کو ٹیلیگرام کیا کہ اس کے درندہ صفت ڈوگرہ فوجی کشمیریوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں وہ انہیں اس ظلم سے روکے یا مستعفی ہو جائے مگر اس کے باوجود حالات نہ بدلے تو سردار یعقوب خان نے غربی کوہالہ میں ڈوگرہ فوج کے ایک لیفٹیننٹ کرنل ہرجیت سنگھ کو اغوا کر لیا اور اسے کوہالہ پل کے درمیان الٹا لٹکا دیا اور مطالبہ کیا کہ جب تک پل نہیں کھولا جاتا اور تمام کشمیری قافلے اس شرط کے ساتھ پل نہیں پار کر لیتے کہ آئندہ کوہالہ پل بند نہیں کیا جائے گا اسے ایک گھنٹے تک لٹکاتے ہوئے گولی مار دی جائیگی ۔۔۔۔۔ آدھا گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ ۔۔۔۔۔ پل کھل گیا، کشمیریوں کے قافلوں نے پل عبور کیا اور پھر یہ پل 1992میں سیلاب کے باعث ٹوٹنےتک کبھی بند نہیں ہوا
 18 جنوری 1937 کو متحدہ ہندوستان کی تاریخ کے پہلے الیکشن ہوئے، مری کی شہری نسشت پر راجہ نور خان کا مقابلہ بیرسٹر فضل الٰہی سے ہوا اور بیرسٹر ہی کامیاب قرار پائے جبکہ دیہی حلقہ میں راجہ محمد خان کا مقابلہ راجہ فتح خان نے کیا مگر کامیاب نہ ہو سکے، سرکل بکوٹ، سرکل لورہ اور گلیات کے ان اولین انتخابات میں بکوٹ سے سردار آزاد خان سیری لورہ کے سردار محمد صادق خان، گلیات سے عظیم خان کڑرال، راجہ عبدالرحمٰن آف نگری ٹوٹیال لورہ، پیر محمد کامران رجوعیہ (ڈیموکریٹک پارٹی) ،رائے بہادر (کانگریس) اور لالہ ایشور داس نواں شہر (ہندو سکھ نیشنلسٹ پارٹی) کامیاب قرار پائے، اس انتخاب میں تحصیل ایبٹ آباد کے اس حلقہ سے کل ووٹ پانچ سو اسی پول ہوئے، امیدوار کی اہلیت پرائمری پاس، مالیہ دے رہا ہو اور سرکاری ملازم نہ ہو، اس پہلے انتخاب میں بیروٹ اور بکوٹ کا ایک پولنگ سٹیشن تھا جبکہ بکوٹ کے سردار آزاد خان اس الیکشن میں ہار گئے تھے۔ (بحوالہ تاریک ہزارہ از شیر بہادر خان پنی) اگرچہ ان انتخابات میں پاکستان کا تصور ابھی واضح نہیں ہوا تھا مگر مسلم ہندو اور کانگریس کی دیگر قوم پرست جماعتوں سے ون ٹو ون مقابلہ ہوا تھا۔ اسی سال ایبٹ آباد میں پہلی بار مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا اور ہزارہ مسلم لیگ کے پہلے صدر میاں نورالدین قریشی بنائے گئے، تین ستمبر کو سرحد لیجسلیٹو اسمبلی کا پہلا اجلاس ٹائون ہال ایبٹ آباد میں منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر خان، خان عبدالغفار خان، مولانا ابولاکلام آزاد اور بابو راجندر پرشاد رائے شریک ہوئے اور کانگریس کے کامیاب امیدوار ڈاکٹر خان کی قیادت میں سرحد حکومت نے حلف اٹھایا، اس پہلی کابینہ میں ہزارہ سے محمد عباس خان پہلے صوبائی وزیر بنے اور انہیں وزارت جنگلات کا قلمدان دیا گیا، اس کے جواب میں ہزارہ مسلم لیگ کی بھی عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی جس کی میزبانی فقیرا خان جدون نے کی اور اس کاندفرنس میں قائد اعظم محمد علی جناح، ، مولانا شوکت علی، مولانا ظفر علی خان، مولانا عبدالماجد بدایونی، جمال میاں فرنگی محل، چوہدری خلیق الزمان کے علاوہ سرکل بکوٹ سے سردار سید اکبر خان (پلک)، حضرت پیر عتیق اللہ بکوٹی، سردار آزاد خان (بکوٹ)، محمد عباس خان ، فضل الرحمان فیض، مولانا یعقوب علوی بیروٹوی (بیروٹ)، حاجی عبدالکریم خان (باسیاں) اور دیگر نے شرکت کی اور قائدین مسلم لیگ کو اپنے بھر پور تعاون کا یقین دلایا، 1939 میں کہوٹہ میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کے پہلے جنرل سیکرٹری شیخ غلام رسول مقرر ہوئے جبکہ اسی سال اہلیان مری کی سماجی تنظیم انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ کے پہلے جنرل سیکرٹری سردار سلطان خان حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے (بحوالہ داستان مری از پروفیسر کرم حیدری) 19 مارچ 1940 میں مری میں خاکساروں کے 313مجاہدین کا اجلاس ہوا جس میں مری کے علاوہ سرکل بکوٹ کے احراریوں نے بھی شرکت کی، اجلاس کے بعد انہوں نے مال روڈ پر جلوس نکالا جس پر پولیس نے گولی چلا دی جس کے نتیجے میں ساملی تجال کا احرار دوست محمد شہید ہو گیا، اس پر رد عمل میں کوہالہ ڈاک بنگلہ کے سامنے مسلم لیگ کا ایک عظیم الشان جلسہ ہوا جس میں سردار
عبدالرب نشتر، سرکل بکوٹ، گلیات اور لورہ کے پہلے ایم ایل اے سردار خان بہادر خان اور چوہدری خلیق الزمان نے خطاب کیا، جلسہ کے بعد ڈاک بنگلہ کوہالہ میں لیگی قائدین کا ایک اہم اجلاس ہوا جس میں مسلم لیگ سرکل بکوٹ کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کے پہلے صدر پیر صاحب بکوٹ شریف حضرت پیر عتیق اللہ بکوٹی منتخب ہوئے، اس اجلاس کی میزبانی باسیاں کے حاجی عبدالکریم خان نے کی اور یہ اعلان بھی کیا کہ ..... آئندہ جب بھی مسلم لیگ اور اس کے قائدین کا کوہالہ میں کوئی اجلاس ہوا وہی اس کی میزبانی بھی کریں گے۔ 26 جولائی 1944 کو قائد اعظم کے دورہ سرکل بکوٹ و مری کے موقع پر کوہالہ پل، لوئر دیول اور مری میں فقید المثال استقبال کیا گیا اور دونوں علاقوں کے مسلمانوں کی طرف سے قائد اعظم کو مسلم لیگ کے فنڈز کیلئے ایک لاکھ روپے کا چیک پیش کیا گیا، بکوٹ کے سرگرم کارکن سمندر خان حلوائی نے مری سے رخصتی کے وقت قائد اعظم کے گھٹنے چوم کر ۔۔۔۔۔ بٹ کے رہے گا ہندوستان، لے کے رہیں گے پاکستان کا نعرہ مستانہ لگایا۔ اس موقع پر مری میں سکھ لیڈر تارہ سنگھ بھی موجود تھا، اس کی ہدایت پر سکھ جتھے گھوڑا گلی، ساملی، کمپنی باغ، تریٹ اور بھارہ کہو میں قائد اعظم کی گاڑی کو دیکھ کر کرپانیں لہراتے رہے، قائد اعظم کے اس دورے اور مسلمانوں کے جوش و ولولے سے مری، باڑیاں، ایوبیہ اور نتھیاگلی میں مقیم انگریزوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے اپنی املاک مقامی لوگوں کو بلکل اسی طرح اونے پونے فروخت کرنا شروع کر دی جس طرح لمحہ موجود میں افغانی فروخت کر کے بھاگ رہے ہیں۔ اسی سال بیروٹ میں فضل الرحمان فیض کے گھر پر انجمن احرار اسلام کا اجلاس ہوا اور یہاں پر ہی عمائدین علاقہ کی باہمی مشاورت سے اس کا نام بدل مسلم لیگ بیروٹ رکھا گیا اور اس کے پہلے صدر بیروٹ کے موجودہ رکن ضلع کونسل خالد عباس عباسی کے والد عباس خان کو متفقہ طور پر منتخب کیا گیا، بریگیڈئر (ر) مصدق عباسی کے والد صادق عباسی اس کے جنرل سیکرٹری بنے جبکہ مولانا یعقوب علوی بیروٹوی کو اس کے سیکرٹری نشرو اشاعت کی ذمہ داریاں سونپی گئیں، جولائی انیس سو پنتالیس میں ملکوٹ کے شیردل خان کے گھر پر عمائدین علاقہ کا اجلاس ہوا جس میں سردار سید اکبر خان مسلم لیگ پلک ملکوٹ کے صدر، شیردل خان جنرل سیکرٹری اور پلک ملکوٹ کے پہلے صحافی اور ہفت روزہ زمین دہلی کے نمائندے عبدالرزاق عباسی مجاہد کو سیکرٹری نشر و اشاعت منتخب کیا گیا، بعد میں اہلیان پلک ملکوٹ نے موجودہ ایوبیہ بازار میں جلوس نکالا اور پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔۔ لا الہ الا اللہ کے فلک شگاف نعرے لگائے (یہ حقائق راقم کو ملکوٹ کی ایک اہم سیاسی شخصیت نے بتائے ہیں) وقت مسلم لیگی کارکنوں کا جوش دیدنی تھا اگلے سال یعنی 1945 کے مئی کے وسط میں پیر صاحب بکوٹ شریف حضرت پیر عتیق اللہ بکوٹی۔ دیول کے مسلم لیگی رہنما حکیم عبدالخالق علوی، سردار کالا خان اور سردار نور خان کی اپیل پر مسلمانان کوہسار نے مقامی غیر مسلموں پر اپنی دھاک بٹھانے کیلئے جھیکا گلی مری سے ایک عظیم الشان جلوس نکالا جو کشمیری بازار، کنڈاں، اوسیاہ، دیول، ترمٹھیاں، بیروٹ، باسیاں سے ہوتا ہوا کنیر پل کے راستے کوہالہ پہنچ کر ختم ہوا جہاں اس جلوس کے ہزاروں شرکا کے اعزاز میں حاجی عبدالکریم خان اور بکوٹ کے سمندر خان حلوائی نے طعام کا بندوبست کیا ہوا تھا، کھانا کھانے کے بعد جلوس کے شرکا سے حضرت پیر عتیق اللہ بکوٹی، سردار سید اکبر خان، خان بہادر خان کے علاوہ پھگواڑی کے راجہ علی شان، راجہ فضلداد خان، محمد نبی خان، اوسیا کے راجہ اشرف خان اور سردار شفیع کے علاوہ دیگر لوگوں نے خطاب کیا (بحوالہ روزنامہ زمیندار لاہور، 20 مئی1945، رپورٹ: سید غلام حسین کاظمی)۔
کسی بھی علاقے میں صحافت سے پہلے ہمیشہ شاعری جنم لیا کرتی ہے، 1940 سے لیکر قیام پاکستان تک بیروٹ کے مولانا یعقوب علوی بیروٹوی اور گھوڑا گلی کے سید صادق بخاری کی شاعری کا طوطی بولتا تھا، دونوں پہلے تحریک احرار کے سر گرم کارکن اور بعد میں مسلم لیگ کے نغمہ خواں بن گئے۔ مولانا یعقوب علوی بیروٹوی نے کوہالہ میں مسلم لیگ سرکل بکوٹ کے پہلے اجلاس میں یہ نظم فی البدیہہ پڑھی ؎
تم سواد اعظم سے رکھو اتحاد ۔۔۔۔۔۔۔شائد اس پر آئیہ قرآن ہے
جد و جہد ایثار مسلم لیگ کا ۔۔۔۔ ما حصل یہ ملک پاکستان ہے
ہے وجود وطن مسلم لیگ سے ۔۔حب وطن از حصہ ایمان ہے
زندہ پائندہ باد اے لیگ ما ۔۔ تجھ سے ہی قائم ہماری شان ہے
سروری دین ما گمت گریست ۔۔ لیگ کا منشور اور عنوان ہے
افسوس، اس سلسلے میں گھوڑا گلی مری کے شاعر سید صادق بخاری کا کلام نہیں مل سکا۔ بہر حال یہ دونوں شاعر کوہسار کا وہ تہذیبی اثاثہ ہیں جن پر ملت کوہسار ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔ (کل سرکل بکوٹ کے صحافیوں کی تحریک پاکستان میں شاندار خدمات کا جائزہ پیش کیا جائیگا، پڑھنا نہ بھولئیے گا) ۔۔۔۔۔
-------------------------
یہی آرٹیکل 12 اگست 2016 کے راوزنامہ آئینہ جہاں میں بھی شائع ہوا ۔
 

Bersala, AJK dak bengalow where Quaid e Azam stayed an hour in 1946. 
 
A poster of Tehreek e Insaf Circle Bakot in Kohala
  • 15th June, 1946..... All India Congress leader Jawaher Lal Nehro crossed Kohala Bridge from western side and came inside Kashmir. He was accompanied with his party leaders Asif Ali and Dewan Chaman Lal. Nehro and his friends were arrested by Dogra police at Domail. The were defendin Shaikh Abdullah at his trial. (My Life and Times  By Sayyid Mīr Qāsim, page 32)

Kohala.... As a place of Public Meeting since 1947
It is a very interesting and untold reality that Kohala had become a public meeting place after 1947. Kashmiri leaders hold their secret meetings at Basian (Union Council Birote) at Sardar Yaqob Khan residance but Kohala political centre place importance emerged in 1951 when first elected Member of NWFP Legislative Assembly started his election compain. Some other important meeting that hold this place are a golden page of Circle Bakote Political History.
  • President General Mohammed Ayoub Khan addressed to people of Kohsar (Circle Bakote and Murree Hills in 1964. First Parliamentary Secretary of Circles of Bakote and Lora in West Pakistan Assembly was with him.
  • A girl’s college was proposed by the Punjab government in 1991, but it was not possible due to lease conditions. A primary school operates in Kohala, with Rawalpindi Education Department funding.
  • In 1997 Ex-Chief Minister of KPK (NWFP) Mehtab Ahmed Khan made a proposal to buy the Kohala rest house and construct a three star personal hotel for tourists, but the proposal lapsed when his government collapsed in 1999.
Prime Minister Nawaz Shareef  was addressing to people of Circle Bakote in 1992 in Kohala.
Sardar Mehtab Ahmed Khan, Sahibzada Pir Zahir Bakoti and Ata u Rehman Abbasi are seen in picture.
 People of Circle Bakote protesting aginst KPK name

 A public rally at New Kohal Brige in UC Birote
Chief Minister KPK Perwaiz Khatak announced Girls Degree College at Birote & Boys Degree College at Kohala during recent visit of Abbottabad. MNA Dr. Azher Jadoon, Rifaq Abbasi and others were on this occesion. CM further advised to MNA immediate purchase of land for both colleges.


Kohala Bridge and Pak India War
Pakistan and India was on brink of war from first day of Indepanace. The hot war was in 1965 when Indian Air Force attacked many time on Kohala Bridge. Ex Air Vice Marshal Arun Kumar Tiwary wrote in his book Indian Air Force in Wars that:
  • 4th November, 1965 some RIAF aircraft bombed the Kohala Bridge.
Read in Urdu
 روزنامہ آئینہ جہاں اسلام آباد، 18اکتوبر2015
روزنامہ سرگرم ایبٹ آباد ۔۔۔۔۔ 25 دسمبر، 2018







تاریخ وتمدن کوہسار

 کوہالہ ۔۔۔۔۔ تاریخ کے آئینہ میں

تحقیق و تحریر ۔۔۔۔۔ محمد عبیداللہ علوی

دریائوں کے کنارے دنیا میں تقریبا ہر ملک میں شہر آباد ہیں، اسی طرح قدیم وتستا، کشن گنگا اور آج کے دریائے جہلم کے شرقی اور غربی کنارے کے مری سے بارہ کلو میٹر دور شمال اور آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد کے جنوب میں بیس کلو میٹر کی مسافت پر کوہالہ کا دوسو سالہ ایک ٹاون آباد ہے جسے رنجیت سنگھ کے تخت لاہور پر 1799 میں قبضہ کے بعد جب سرکل بکوٹ سمیت مری اور ہزارہ کو بھی اپنی سلطنت میں شامل کیا تو مقامی قبائل میں شدید بے چینی پیدا ہوئی کیونکہ اس خالصہ راج نے اس علاقے میں آٹھ صدیوں سے قائم گکھڑ حکومت کا نہ صرف خاتمہ کیا بلکہ پر سکون اور ترقی یافتہ کوہسار کے زرعی تمدن کو بھی زوال آمادہ کیا۔
1831 کے سانحہ بالا کوٹ( ایک معرکے میں سہید احمد شہید ہو گے) کے بعد تو یہ صورتحال ہو گئی تھی کہ دریائے کنہار، دریائے جہلم کے کناروں پر مجاہدین نے جام شہادت نوش کر کے کوہسار کی ایک نئی تاریخ مرتب کر ڈالی جو اہلیان کوہسار کی جرات، شجاعت اور بے لوث جہاد کی ایک سنہری داستان کی حیثیت رکھتی ہے۔
کوہالہ کے نام کی اصلیت
کوہالہ سنسکرت کے دو الفاظ “کو” اور “ہالہ” کا مجموعہ ہے جس کا مطلب ’’ناقابل فہم زبان‘‘ ہے ۔ دوسرا معنی ایک روحانی مشروب کا ہے تیسرا ترجمہ موسیقی کا آلہ بھی ہے۔
انڈولوجی کے ایک سکالر ’’پنڈورانگ وامان‘‘ کین اپنی کتاب ’’ہسٹری آف سنسکرت پوئیٹک‘‘ میں کوہالہ کا ویدک مفہوم ’’خوشبو‘‘ قرار دیتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند کے علاوہ دنیا میں مختلف مقامات کا نام بھی کوہالہ ہے۔
زیر بحث کوہالہ وہ ’’باب کشمیر‘‘ ہے جہاں سے اہل ہند صدیوں سے کشمیر کے راستے ہزارہ اور پنجاب آتے رہے ہیں ۔ اس روٹ پر قرنوں کے سفر اور اختلاط سے ایک نئی زبان ’’ڈھونڈی‘‘ ( ہندکو) وجود میں آئی جس کا ستر فیصد اثاثہ یہاں کے قدیم کیٹھوال قبیلہ سے منسوب کیٹھوالی زبان کا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو لفظ کوہالہ ڈھونڈی زبان کے لفظ “کوہال” کی جدید شکل ہے جس کے معنے موجودہ دور میں اسی زبان کے متبادل لفظ میں “سرنی” یا گئو خانہ کے ہیں جہاں مویشی باندھے جاتے ہیں لیکن چونکہ اس کوہالہ سے نشیب میں کنیر پل کے پار گوجر کوہالہ بھی موجود ہے۔
انڈولوجی کے ایک اور سکالر ’’رالف ایل ٹرنر‘‘ اپنی مرتب کردہ لغت “A comparative dictionary of indo aryan language” جلد سوئم کے صفحہ 183 میں لفظ کومال کی ذیل میں کوھالہ کے معنی نرم، نوجوان اور پیارہ کے بتاتے ہیں، اگر دریا کا یہ دہانہ اتنا زیادہ وسیع ہوا ہو گا تو یقینا یہ عہد قدیم کا بہت ہی خوبصورت مقام رہا ہو گا۔
کوہالہ کی تاریخی حیثیت
کوہالہ کے معانی، ماخذ اور اس کی اصلیت پر کوئی متفق ہو یا نہ ہو مگر اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ گندھارا تہذیب کے مرکز سلطنت ٹیکسلا اپنے عہد کی وہ سپر پاور تھی جو وسطی ایشیا سے جزائر غرب الہند تک پھیلی ہوئی تھی، یہاں پر ہی اڑھائی ہزار سال قبل بدھا یونیورسٹی بھی موجود تھی جو شمالی ہند میں علم و فضل کا سب سے بڑا مرکز تھی اور یہاں پر ہند کا قدیم آئین ساز چانکیہ کوٹلیہ، ماہر لسانیات پانینی جیسے استاد علم کی شمع روشن کئے ہوئے تھے اور ہندوستان بھر سے طلبا اپنی پیاس بجھانے یہاں آتے تھے، بدھا یونیورسٹی کا ایک کیمپس شاردہ آزاد کشمیر میں بھی تھا ، ان دونوں کیمپس کو نیو کوہالہ پل کا راستہ آپس میں ملاتا تھا۔
طلبا اگر ٹیکسلا سے چلتے تو راستہ سری نگر کوہالہ روڈ والا ہی ہوتا تھا جبکہ گوجر کوہالہ اس وقت ایک نیلم پوائنٹ تھا جہاں قیام و طعام کی بہترین سہولیات دستیاب تھیں، طلبا یہاں پر تھکاوٹ اتارنے کے بعد چلتے اور ان کی اگلی منزل کوہ موشپوری کی چوٹی پر موجود ہنو مان جی کا مندر تھا جہاں وہ چند روز ماتھا ٹیکتے اور پھر نتھیا گلی اور کوہالہ بالا کے راستے ٹیکسلا پہنچتے۔
ٹیکسلا سے آنے والوں کا روٹ بھی یہی ہوتا تھا، بدھا یونیورسٹی کی ایک روایت یہ بھی تھی کہ جو طالب علم فارغ التحصیل ہو جاتا وہ استاد کے پائوں دودھ سے دھو کر وہ دودھ پی لیتا جس کا مطلب یہ ہوتا کہ اس نے علم کا جام اپنے اندر انڈھیل لیا ہے، اڑھائی ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی کوہسار میں ایک محاورہ مقامی زبان میں بولا جاتا ہے کہ پیر توہی توہی پینا۔۔۔۔۔۔۔، در اصل یہ اسی روایت کی ایک نشانی ہے جو کیٹھوالی زبان سے موجودہ ڈھونڈی زبان میں منتقل ہوئی ہے۔
دریائے جہلم کیسے وجود میں آیا۔۔۔۔۔۔؟
اس علمی سوال کا جواب دوہزار پانچ میں اکسفورڈ پریس کے زیر اہتمام کمبرلی ہوسٹن کی کتاب دی ایشئین سائوتھ ایسین ورلڈ۔۔۔۔۔۔۔۔ سٹوڈنٹس سٹڈی گائیڈ کے باب دوئم کے صفحہ چودہ پر ٹائم لائن کے عنوان سے دیکھی جا سکتی ہے۔
فاضل مصنف لکھتے ہیں کہ چار لاکھ سال پہلے کشمیر کا یہ علاقہ ایک ارضی واقعہ کے نتیجہ میں ظہور میں آیا جہاں ایک بہت بڑی جھیل بن گئی، دولاکھ سال پہلے یہاں ایک بہت بڑا زلزلہ آیا اس کے نتیجے میں موجودہ دریائے جہلم کی گزر کا پر ایک دراڑ بن گئی اور پانی نے پنجاب کی طرف بہنے کیلئے چلنا شروع کر دیا، دس ہزار سال پہلے پھر ایک زلزلہ آیا اور دریائے جہلم کے ارد گرد بڑے بڑے پہاڑ نمودار ہو گئے، اسی تھیوری پر قیاس کرتے ہوئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی زمانے میں خوفناک زلزلہ آنے سے گوجر کوہالہ کا وجود مٹنے، اڑھائی ہزار سال قبل ہنوں کے ہاتھوں ٹیکسلا کی تباہی کے بعد کوہالہ کا یہ روٹ بھی متروک ہو گیا ہو گا یا اس کی جگی موجودہ کوہالہ آباد کیا گیا ہو گا، زلزلے آج بھی آتے ہیں اور دوہزار پانچ کے بڑے اور آخری زلزلہ نے تو کوہسار کا رنگ ہی بدل دیا ہے۔
کوہالہ کی تجارتی حیثیت
کوہالہ یوں تو صدیوں سے ایک گزرگاہ کے طور پر جانا جاتا ہے، دیکھا جائے تو کشمیر کی پنجاب سے تجارت کوہالہ کی ہی مرہون منت رہی ہے، اسے حقیقی تجارتی حیثیت اٹھارہویں صدی کے وسط میں اس وقت ملی جب بنجاب سے گکھڑ اقتدار ختم ہوا اور مری اور سرکل بکوٹ سمیت تمام کوہسار دربار لاہور کی جھولی میں آ گرا۔
1767 میں راولپنڈی جو محض گجنی پورا کے نام سے ایک قصبہ کے طور پر جانا جاتا تھا یا سید پور اور جھنڈا چیچی میں گکھڑ حکمرانوں کے چند محلات تھے یہاں پر سکھ حکمران ملکا سنگھ نے قبضہ کے بعد موجودہ شیخ رشید کی لال حویلی کے مقام پر ایک قلعہ بنایا، نرنکاری بازار میں چند دککانیں بنیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے راجہ بازار کی شکل اختیار کر لی، شمال میں پتن کے مقام پر کچھ دکانیں تو تھیں مگر ملکا سنگھ نے راجہ بازار کی تجارت کو کشمیر تک وسعت دینے کیلئے دیول اور موجودہ اہلڈ کوہالہ بازار کو ایک تجارتی منڈی میں تبدیل کرنے کی بنیاد ڈالی، پنجاب سے ہندو ساہو کاروں کو وہاں لا بسایا، مقامی لوگوں کو بیدخل کر کے ان کی اراضی ان کے نام کی گئی اور پھر مقامی لوگوں کو زراعت، تجارت وغیرہ سے بھی فارغ کر دیا گیا اور ان سے بیگار لی جانے لگی۔

راولپنڈی سے سامان تجارت پہلے دیول آتا تھا، یہاں سے ڈیمانڈ کے مطابق کھودر کے راستے ضلع باغ اور کوہالہ بھیجا جاتا تھا، اسی عہد میں کوہالہ میں تہہ در تہہ دکانیں اور کوٹھیاں بھی بنیں، یہ ہندو ساہو کار مقامی لوگوں سے اون پون غلہ خریدتے اور پھر انہیں ہی تین گنا قیمت پر واپس بیچتے، ان مجبور لوگوں کو بھری سود پر ان کی غمی خوشی پر قرضے دئے جاتے اور پھر انہیں گہنوں اور جائیداد سے محروم کر دیا جاتا، جس کے پاس لوٹانے کیلئے کچھ نہ ہوتا اس کا سر منڈوا کر سر پر اخروٹ رکھ کر اوپر مٹی سے بھری پرات گھمائی جاتی جس کی وجہ سے اس کے سر کی ہڈی ٹوٹ جاتی اور قرض دار مر بھی جاتا، یہ خوفناک اور دردناک سلسلہ 1768میں کوہالہ بازار کے قیام سے 1848میں انگریزوں کی آمد تک جاری رہا۔
انگریزوں نے کشمیر کی تجارت میں تیزی لانے کیلئے کوہالہ میں 1871 کو معلق پل بنایا جو 1893 میں ایک سیلاب کے نتیجے مں بہہ گیا، دوسرا آہنی پل 1899میں تعمیر ہوا ۔ باسیاں کے شاہنواز خان کو ان دونوں پلوں کا ٹھیکہ ایوارڈ ہوا جبکہ بیروٹ کے پہلے انجینئر مستری نور الٰہی نے ان دونوں پلوں کو نہ صرف ڈیزائن کیا بلکہ اس کی نگرانی میں انکی تعمیر مکمل ہوئی، پلوں کی وجہ سے سری نگر کا برائے راست تجارتی رابطی راولپنڈی سے ہو گیا اور کشمیری اجناس پنجاب پہنچنے لگیں، اس کے علوہ پبلک ٹرانسپورٹ کی داغ بیل بھی ڈالی گئی، 1910 میں ترمٹھیاں کے دیوان سنگھ کی چار بسیں راولپنڈی سرینگر روٹ پر دوڑنے لگیں، دیوان سنگھ کا بتیجھا کاکا سنگھ سرکل بکوٹ کا پہلا ڈرائیور تھا۔اس روٹ پر اسی بس کا 1920میں پہلا حادثہ برسالہ کہ مقام پر ہوا جس میں بیروٹ کے میاں میر جی شاہ سمیت 20افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔
انگریزوں نے کوہالہ کو تجارتی مرکز کی حیثیت کے ساتھ ساتھ ایک سیاحتی مرکز بھی بنایا، یہاں پر ایک ریسٹ ہائوس، تار گھر، پوسٹ آفس، ایک شراب خانہ اور بعد میں منشیات ڈپو بھی بنایا، یہ بازار ایک میل لمبا تھا اور اس کی حیثیت باب کشمیر کی تھی، اس سے قبل 1855 کے لگ بھگ کوہالہ کو ہزارہ کی کمشنری سے جھاری کس کی اراضی کے تبادلے میں مری کا حصہ بنایا گیا اور اس کی لیز ایک سو سال کیلئے پنجاب حکومت نے حاصل کر لی۔ 
  قیام پاکستان تک کوہالہ کی 85 فیصد تجارت ہندو ساہوکاروں کے ہاتھ میں تھی اور مقامی مسلمان محض خریدار تھے۔
عہد حاضر میں اگرچہ کوہالہ اپنی مرکزی حیثیت کھو چکا ہے، سردار مہتاب کے عہد میں سڑکوں کے وسیع نیٹ ورک کی وجہ سے کوہالہ پر اہلیان سرکل بکوٹ کا انحصار نہ ہونے کے برابر ہے، آزاد کشمیر میں بھی منڈیاں قائم ہونے کے بعد یہاں سے اب کچھ بھی برآمد نہیں ہو رہا، اب تو نیو کوہالہ برج کی تعمیر کے بعد گوجر کوہالہ کی تجارتی حیثیت دوبارہ بحال ہوئی ہے، یہ اولڈ کوہالہ اب محض ماضی کا ایک قصہ ہے جو تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو چکا ہے۔

کوہالہ کی دفاعی حیثیت
پاکستان بننے کے بعد کوہالہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے، اگست 1947 میں کوہالہ پل بند کر دیا گیا تھا جو دسمبر میں دوبارہ کھولا گیا اور یہاں سے پنڈی مری اور مری ہلز ٹرانسپورٹ کے نئے روٹ کا اجرا ہوا۔ کشمیر میں جوں جوں حالات خراب ہوتے گئے توں توں کوہالہ پل اور بازار پر بھارتے حملوں میں بھی شدت آتی گئی، 2نومبر 1947 کو بھرتی بزدل فضائیہ نے کوہالہ پر پہلا حملہ کیا تا ہم اس سے صرف ایک دکان کو نقصان پہنچا، اسی ماہ میں بیس روز بعد بھارت نے کوہالہ پر دوسرا حملہ کیا، 21اگست 1949کو تیسرے بھارتی حملے میں متعدد افراد زخمی جبکہ ایک مقامی شخص سجاد جاں بحق ہو گیا، 1985 اور 1971 کی پاک بھرت جنگوں کے دوران بھی اس پل پر کئی ایک حملے کئے گئے مگر پاکستانی شاہینوں نے بھارتی بزدلوں کے کوہالہ کو تباہ کرنے کے خوابوں کو منتشر کر دیا۔
کوہالہ کی سیاسی حیثیت
روایت ہے کہ چمیاٹی کے عبدالرزاق عباسی نے کوہالہ پل پر پنڈت لال نہرو کو تھپڑ رسید کیا تھا، انیس سو پینتیس کے قانون ہند کی منظوری کے بعد 1936میں برصغیر کے پہلے انتخابات ہوئے، ان انتخابات کی سیاسی اہمیت کے پیش نظر کوہالہ سرکل بکوٹ کا مرکز بن گیا، یہاں پر پنجاب اور ہزارہ کی سیاسی تاریخ کے پہلے عوامی جلسے مسلم لیگ، کانگریس، ہندو سکھ نیشنلسٹ پارٹی، ڈیمو کریٹک پارٹی اور احراروں کے جلسوں سے صاحبزادہ عبدالقیوم (بعد میں وزیر اعلیٰ سرحد بنے)، حاحبزادہ پیر حقیق اللہ بکوٹی، سردار حسن علی خان، عبدالرحمٰن خان (لورہ)، سرادر کالا خان، سردار نور خان، سردار عبدالرب نشتر اور دیگر نے خطاب کیا، 26جولائی1945 کو قائد اعظم کشمیر سے کوہالہ پل عبور کر کے جب غربی کوہالہ میں داخل ہو ئے تو کوہالہ پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا ، آپ کو اہلیان کوہسار نے اپنے کندھوں پر اٹھا لیا، اور ان کی کار کے پیچھے احترام میں دیول تک گے اور صلیال (داخلیات بیروٹ) سے انہیں رخصت کیا، 1946 میں پنڈت نہرو شیخ عبداللہ اور سرحد کے آخری کانگریسی وزیر اعلی ڈاکٹر خان کے ہمراہ کشمیر سے واپسی پر کوہالہ پل عبور کرنے لگا تو یو سی بکوٹ کے ایک بہادر شخص حلوائی ہوٹل والے نے ملنے کے بہانے کوہالہ پل کے درمیاں پنڈت نہرو کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ دے مارا
ایک روایت یہ بھی ہے کہ طمانچہ رسید کرنے والا چمیاٹی کا عبدالرزاق عباسی تھا تاہم یہ طمانچہ بعد میں کشمیر کی قسمت میں آج تک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

یہ کوہالہ پل آزادی کے دوران کشمیریوں کیلئے ایک زندگی اور موت کا سوال بن گیا اور باسیاں کے مرد مجاہد سردار یعقوب خان نے اس کا محافظ بن کر کشمیریوں کے لئے زندگی کی علامت اور ان لے دلوں میں امر ہو گیا، 1952 میں جب سرکل بکوٹ میں پاکستانی تاریخ کے پہلے الیکشن ہوئے تو سرکل بکوٹ میں ماضی کے کانگریس نواز امیدوار سردار حسن علی خان کیخلاف اسی کوہالہ میں عوام نے اپنی نفرت کا اظہار کیا اور اس کے مقابلہ میں حضرت پیر حقیق اللہ بکوٹی کو کامیاب کرایا، یہی وہ کوہالہ پل ہے جہاں صدر ایوب خان، وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو، صدر ضیاء الحق، وزیر نواز شریف اور دیگر سیاسی زعمائوں نے خطاب کیا، یہاں پر 1977 میں پی این اے کی بھٹو مخالف تحریک کے دوران سابق ایئر مارشل اصغر خان نے بھٹو کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ میں بھٹو کو کوہالہ پل پر دختہ دار پر لٹکائوں گا، امر ہو گیا اور ان الفاظ کی عملی تعبیر بھی آگئی۔ آزاد کشمیر یونیورسٹی مظفر آباد کے سابق پروفیسر صابر آفاقی کہتے ہیں کہ علامہ اقبال نے اپنے سفر کشمیر کے دوران کوہالہ پل سے گزرتے ہوئے اپنی بانگ درا کی پہلی نظم ہمالہ کا آغاز کیسا تھا جو سری نگر پہنچ کر مکمل کی تھی۔ یہ پہلے اشعار اس طرح ہیں۔
اے ہمالہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے فصیل کشور ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں

جب قائد اعظم نے تاریخی کوہالہ پل عبور کیا؟
شمالی پنجاب میں مسلم لیگ کی مقبولیت اور کانگریس و حکمران یونینسٹ پارٹی کے زوال کے آثار نمایاں تر ہوتے جا رہے تھے، جواہر لال نہرو اس صورتحال سے پریشان تھے۔
اس سلسلے میں وہ کشمیر کے راستے کوہسار آنے کیلئے کوہالہ پل پر پہنچے ، مگر کوہسار کے مسلمانوں نے محارہ کے طور پر نہیں بلکہ عملی طور پر تھپڑ رسید کر کے نہرو کو غربی کوہالہ میں قدم بھی رکھنے نہیں رکھنے دیا اور اسے وہاں سے ہی واپس دہلی جانا پڑا۔
یہ تھپڑ بھی قیام پاکستان کی نا گزیرت کی ایک اینٹ تھی، قائد اعظم محمد علی جناح نے اس خطہ کے لوگوں اور اپنے جانثاروں سے براہ راست رابطے کیلئے یہاں آنے کا پروگرام بنایا۔
آپ جولائی 1944ء میں کشمیر کے راستے کوہالہ کے قریب برسالہ کے مقام پر پہنچے، قائد کی جھلک دیکھنے کیلئے غربی کشمیر، سرکل بکوٹ اور مری کے کوہساروں کے چپہ چپہ سے لوگوں کا سمندر امڈ آیا تھا، قائد اعظم کی کار کو کوہسار کے پھولوں سے لاد دیا گیا تھا، قائد نے یہاں چائے نوش جاں کی اور پھر آدھے گھنٹے بعد کوہالہ پل پر پہمچے تو اہلیان کوہسار ان کے ہاتھ چومنے کیلئے آگے بڑھنے لگے، کوہالہ کا یہ تاریخی پل پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجھنے لگا، آپ نے ہاتھ ہلا ہلاکر پاکستان کے متوالوں کے سچے اور سُچے جذبات کو سراہا، جب قائد اعظم نے کوہالہ پل عبور کیا تو ان کے عقیدت مند انہیں کوہالہ ریسٹ ہائوس لے آئے جہاں ریسٹ ہاوس کے ایڈمنسٹریٹر حاجی عبدالکریم خان آف باسیں نے ان کا استقبال کیا اور انہیں بھولوں کا گلدستہ بھی پیش کیا۔،
نور الٰہی عباسی اپنی کتاب تاریخ مری (نیا ایڈیشن) کے صفحہ نمبر 185پر لکھتے ہیں۔
’’اس موقع پر لوئر دیول کے بزرگ رہنما امیر احمد خان صفوں کو چیرتے ہوئے آگے نکل کر قائد اعظم کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، انہوں نے بصد خلوص احترام پھولوں کا گلدستہ پیش کرتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا کہ برگ سبز است، تحفہ درویش است، (ایک بزرگ کی طرف سے سبز پتوں کا تحفہ قبول کر لیجئے) یہ کہتے ہوئے بابا امیر خان کی نظریں بابائے قوم کے چہرے پر مرکوز ہو گئیں ۔۔۔۔۔ قائد اعظم نے بابا جی سے پوچھا۔
بابا جی بتائیں میں کون ہوں اور میرا مشن کیا ہے؟
جی آپ مسلمانوں کے عظیم رہنما اور قائد اعظم محمد علی جناح ہیں اور برصغیر کے مسلمانوں کے لئے آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ بابا احمد خان نے بڑی متانت سے جواب دیا۔‘‘

قائد اعظم نے مری پہنچ کر جو تقریر کی وہ اگرچہ انگریزی زبان میں تھی اور اس کا مری کے ممتاز مسلم لیگی رہنما خواجہ محمود احمد منٹو ساتھ ساتھ اردو میں ترجمہ بھی کر رہے تھے (یہ تقریر پاکستان نیشنل آرکائیوز اسلام آبادکے ریکارڈ میں موجود نہیں) نور الہی عباسی ہی اس کے راوی ہیں، اپنی کتاب تاریخ مری میں لکھتے ہیں۔
’’میں جانتا ہوں مری کا پتہ پتہ مسلم لیگی ہے جبکہ ہمیں ہندو کانگریس اور انگریز سامراج کا سامنا ہے ، چکی کے یہ دو پاٹ ہمیں پس دینے پر تلے ہوئے ہیں،آپ دونوں کے درمیان لوہے کے چنے بن جائیے تاکہ پس نہ جائیں۔ (، اس موقع پر راجہ کالا خان نے نہ صرف قائد اعظم کی میزبانی کی بلکہ انہیں قبائل کوہسار کی طرف سے مسلم لیگ کے فنڈ میں ایک لاکھ روپے کا چیک بھی پیش کیا )۔
قائد کا کوہسار سرکل بکوٹ اور مری کا یہ پہلا اور آخری دورہ تھا، آپ کے اس دورے کا اثر یہ ہوا کہ یہاں مقیم کانگریسیوں کے حوصلے پست ہو گئے، علاقے میں ایک نیاجوش و ولولہ دوڑ گیا اور واقعی کوہسار کا پتہ پتہ مسلم لیگی ہو گیا، اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں کی عید آزادی کی صبح نمودار ہو گئی ۔
****************************
یہ آرٹیکل روزنامہ سرگرم ایبٹ آباد اور یو سی نمبل کے ایک سکالر جبران عباسی کی ویب سائت ۔۔۔۔۔۔ http://urduoutline.com/archives/861?fbclid=IwAR1EvTOK8zaxPr3omXMZSufypOWssZIG_690i9eb50ukkkiW_3qwFaQAdP8
پر بھی شائع ہوا ہے ۔۔۔۔۔ سب سے پہلے یہ آرٹیکل روزنامہ آئینہ جہاں اسلام آباد مٰن شائع ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔


کوہالہ کی تاریخی عمارات

اور 

حکومت پاکستان کی بے حسی

تحریر

محمد عبیداللہ علوی

*********************************
وائے ناکامی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ متاع کاررواں جاتا رہا
کاررواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

اگر کوہالہ کے بڈھے ٹائون کو دیکھیں تو دریائے جہلم کے دونوں کناروں پر
 موجود لوگوں کی ذہنی سطح بلکل مختلف نظر آوے گی



مغربی کوہالہ میں بہت سے آثار الصنادید تھے ۔۔۔۔۔۔۔ ڈاک بنگلہ، تار گھر، ڈاکخانہ، خوبصورت دکانیں، قدیم پہلے پل کے پائے اور کنیر پل پر ایک ڈاک بنگلہ ۔۔۔۔۔۔۔ مگر یہ وقت کے ہاتھوں اپنی تباہی و بربادی کی جانب گامزن ہیں ۔۔۔۔۔۔ انگریزوں کے ایمپیریل دور سے تعلق رکھنے والے سرکل بکوٹ کی تاریخ سے جڑے یہ آثار اب بکوٹیوں اور بیروٹویوں کی ورکشاپیں بن چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔ کنیر پل کے ڈاک بنگلہ کے کھڑکیاں، دروازے، فرنیچر وغیرہ نے بھی اپنوں کی مہربانیوں سے جہاں پہنچنا تھا وہاں پہچ چکا ہے بلکہ کوہالہ والا ڈاک بنگلہ بھی کوئی طوفان باد و باراں اور کوئی مقامی لوگوں کے ہاتھوں فنا ہوتا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ کوئی بھی اس کا والی وارث نہیں

اب آپ اولڈ کوہالہ کا آہنی پل عبور کریں ۔۔۔۔۔ پل کے مشرقی کنارے کی داہنی جانب مظفرآباد شاہراہ پر آدھے میل کے فاصلہ پر بھی ایک ڈاک بنگلہ موجود ہے جسے آزاد کشمیر حکومت نے تزئین و آرائش کر کے سیاحوں کیلئے بہترین ریسٹ ہائوس بنا رکھا ہے اور سیاح یہاں پر دوہزار روپے میں قیام کرتے اور طعام کی لذتوں سے بہرہ یاب ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

پتہ ہے برسالہ کے اس ڈاک بنگلہ کو کیوں رینوویٹؐ کیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔؟ کشمیر سے جولائی 1946ء میں واپسی پر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ ریفریشمنٹ کیلئے یہاں آدھا گھنٹہ رکے تھے اور پھر وہاں سے چل کر کوہالہ پل پر آئے جہاں یو سی بکوٹ کے ایک نوجوان ۔۔۔۔۔ سمندر خان حلوائی ۔۔۔۔۔۔ نے انہیں اپنے کندھے پر سوار کیا اور ۔۔۔۔۔۔۔ بن کے رہے گا پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان ۔۔۔۔۔۔ کے نعروں کی گونج میں انہیں سرکل بکوٹ کے ڈاک بنگلہ میں سجی سٹیج پر لایا جہاں کوہسار بھر کے مسلمان پہلے ہی ان کے منتظر تھے ۔۔۔۔۔۔۔ اس ڈاک بنگلہ میں قائد اعظم کے استقبال کیلئے آئے مسلمانوں کی میزبانی باسیاں کے حاجی عبدالکریم خان اور بکوٹ کے سمندر خان حلوائی نے کی ۔۔۔۔۔۔۔ کھانا کھانے کے بعد جلوس کے شرکا سے حضرت پیر عتیق اللہ بکوٹی، سردار سید اکبر خان، خان بہادر خان، مولانا یعقوب علوی بیروٹوی کے علاوہ پھگواڑی کے راجہ علی شان، راجہ فضلداد خان، محمد نبی خان، اوسیاہ کے راجہ اشرف خان اور سردار شفیع اوردیگر لوگوں نے خطاب کیا

قائد اعظم کی قدردانی کا موازنہ کیا جائے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ برسالہ، شرقی کوہالہ کا ڈاک بنگلہ ۔۔۔۔۔۔۔ اس کی زندہ مثال ہے جبکہ اپنی جہالت اور اپنی تاریخ سے جڑے قومی ورثہ کو جائیداد بنانے کی بات کی جائے تو مقامی بااثر سیاستکار اور حکومت پاکستان اس کی ذمہ دار ہے جس نے اتنی اہم تاریخی عمارت کو امتداد زمانہ کے حوالے کر دیا ہے ۔۔۔۔۔۔ بے حسی کی انتہا دیکھئے کہ 1997ء میں یہ پاکستانی ڈاک بنگلہ سرکل بکوٹ کے ایک اہم سیاست کار اسے لیز پر لے کر یہاں ہوٹل بنانا چاہتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر بوجوہ ایسا نہ ہو سکا
وائے ناکامی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ متاع کاررواں جاتا رہا
کاررواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
*******************************************

تین فروری، 2020ء
(To be continued)
External links 

References
  1. India,, Pakistan and the Secret Jihad: The Covert War in Kashmir, 1947-2004, By Praveen Swam
  2. My Life and Times by Sayyid Mīr Qāsim Allied Publishers,published in 1992 
  3. Glossary of the Tribes and Castes of the Punjab and North-West Frontier Province, Volume 1,Atlantic Publishers & Dist, 01-Jan-1997 for reference of Devi Kohla or the Devi of Kowel
  4. Revolution in Infantry Affairs by Hitesh Lav, Published by Lancer International Incorporated, 2013.
  5. An incredible war: Indian Air Force in Kashmir war, 1947-48 by Bharat Kumar and published by Centre for Air Power Studies (New Delhi, India)
  6. KASHMIR - THE UNTOLD STORY by Christopher Snedden and published by HarperCollins Publishers India
  7. India's Armed Forces: Fifty Years of War and Peace by Ashok Krishna and published by Lancer Publishers, 1998
  8. Kashmir Crisis Unholy Anglo Pak Nexus by Saroja undararajan and published by Gyan Publishing House, 2010 - India 
  9. History of Jammu and Kashmir Rifles, 1820-1956: The State Force Background by K. Brahma Singh and published by Lancer International, 1990 
  10. Current and Future Trends in Bridge Design, Construction and Maintenance: Safety, Economy, Sustainability and Aesthetics,  Proceedings of the International Conference Organized by the Institution of Civil Engineers and Held in Singapore on 4-5 October 1999 by Parag C. Das, Dan M. Frangopol, Andrzej S. Nowak, published by Institution of Civil Engineers London (Great Britain)
  11. Trans-Himalayas: Discoveries and Adventures in Tibet  By S. Hedin and published by Asian Educational Services, 31-Dec-1999  pp 22
  12. (Indian Music: History and Structure by Emmie Te Nijenhuis,
  13.